ناولٹ

Azadi Kay Is Safar Main : Komal Sadiq

وقت سبک روی سے آگے بڑھتا گیا ۔ اسلم اور عامر میٹرک کے امتحان کے بعد فارغ تھے اس لئے اکثر کنارِ راوی چلے جاتے اور مچھلیاں پکڑتے ۔ وہ بھی ایک عام سا دن تھا دونوں کافی دیر سے گھر سے نکلے ہوئے تھے۔
’’ چل بھئی اسلم! تُو ادھر کنڈی ڈال کر بیٹھ میں اس پتھر پر بیٹھتا ہوں ۔ ‘‘ اسلم نے بیدلی سے کنڈی پھینک دی۔
’’ نہیں میرا دل نہیں کر رہا تُو پکڑ ۔ ‘‘ وہ ٹکٹکی باندھ کر اداس نظروں سے راوی پار دیکھنے لگا۔
’’اسلم ! یار ! تُو جب ادھر آتا ہے ایسے ہی پریشان ہوتا ہے ۔ آئندہ نہیں آئیں گے چل آج پکڑتے ہیں مچھلیاں۔‘‘
’’ کیاکروں عامر نہیں بھولتا سب۔گاؤں کے رستے پر گرے ابا ، جلا لٹا ہوا گھر ، کنویں میں ماں بہنوں کی لاشیں اور راوی میں گرتا پا اکرم ۔ کیسے بھول جاؤں سب ۔ ‘‘ عامر نے اس کا ہاتھ تھپکا۔
’’ جو اللہ کی مرضی ۔ چلو چلتے ہیں ۔ ‘‘ وہ گائوں کی طرف پلٹے ہی تھے کہ ریحان بھاگتا ہوا آیا۔
’’ ابا بلا رہے ہیں دونوں کو ۔ ‘‘ جب وہ گلی کی نکڑ پر پہنچے تو ڈھول والا ڈھول بجا رہا تھا ۔ سب لوگ جمع تھے ماسٹر جی مٹھائی بانٹ رہے تھے۔
’’ آ!پتر میرے گلے لگ جا ، تو نے تحصیل میں پہلی پوزیشن لی ہے ۔ کمال کر دیا شہزادے ۔ ‘‘ ماسٹر جی نے معانقہ کر کے اسلم کا ماتھا چوما ۔ ککر جمی آنکھوں میں ہلچل ہوئی اور وہ ماسٹر جی کے گلے لگ کر رو دیا۔
’’ نہ رو پتر وے ، آج خوشی کا دن ہے چل اندر چل ۔ ہاں بھئی! شام کو آنا سب دعوت ہے میری طرف سے ۔ ‘‘ انھوں نے سب محلے والوں کو دعوت دی اور ڈھول والے کو فارغ کر کے اندر چلے گئے ۔
ماسٹر جی نے دونوں کا داخلہ لاہور کروا دیا اور خود بھی تبادلے کے لیے دوڑدھوپ کرنے لگے ۔ لاہور جانے سے ایک دن پہلے کا قصہ ہے ۔ سب آنگن میں نشستیں جمائے بیٹھے تھے ۔ نظیراں نے کچھ دیر پہلے پانی کا چھڑکاؤ کیا تھا ۔ مٹی کی سوندی مہک کے ساتھ تین اطراف میں بنی کیاریوں میں لگے دیسی گلاب اور موتیا کے پھولوں کی خوشبو آنگن میں چکراتی پھر رہی تھی ۔ ماسٹر جی نے حقے کی نے لبوں سے ہٹاتے ہوئے اسلم سے پوچھا ۔
’’پتر اسلم!یہ توبتاؤ ذرا اپنے لیے تم کیا سوچتے ہو یا بس جو میں کہتا ہوں وہی کرتے چلے جاتے ہو۔‘‘
’’ اباجی ! (عامر اور ریحان کی طرح وہ انھیں ابا اور نظیراں کو اماں کہتا تھا )آپ میرے لیے بہترین سوچتے ہیں بس میں بہت زیادہ پڑھ کر پھر پڑھانا چاہتا ہوں ۔ابا جی بھی استاد تھے اور آپ بھی ۔ پھر یہ وہ دولت ہے جسے نہ کوئی لوٹ سکتا ہے نہ یہ بٹوارے میں راوی پار رہتی ہے ۔ اب دیکھیں نا اونچی ماڑی ، 102 ایکڑ زمین ، پیسہ ،زیورات اور مال مویشی سب ادھر رہ گیا میں ساتھ لا سکاتو ایک جھنڈا اور ابا کی پڑھائی چار جماعتیں ۔ اس لیے علم ہی میرا مقصد ہے اور یہی میری میراث ۔ ‘‘ وہ خاموش ہوا اور ماسٹر جی نے اس کی پیٹھ ٹھونکی ۔
’’ واہ!میرا پتر واہ!دیکھ نظیراں ! اپنا پتر کتنی سیانی باتیں کرتا ہے ۔ لگتا ہی نہیں بالڑا(بالغ لڑکا)اسلم بول رہا ہے لگتا ہے کوئی فلسفی بول رہا ہے۔‘‘
’’ ماسٹر جی!یہ بالڑا ہے ہی کہاں یہ تو اسی دن بوڑھا ہوگیا تھا جب پانچ لاشیں کندھے پر اٹھائے راوی پار سے آیا تھا ۔‘‘
’’بس دعاکر رب سوہنا ہمیں دنیا و آخرت میں سرخرو کر دے ۔ ‘‘
’’آمین!‘‘
٭…٭…٭
ستمبر کی ایک سہانی صبح دونوں نے لاہور کی طرف رخت سفر باندھا ۔ ماسٹر جی نے فی الوقت رہائش کا انتظام ہوسٹل میں کیا تھا ۔ سارے معاملات طے کرنے کے بعد جب انھیں ہوسٹل میں چھوڑا تو عامر سے مخاطب ہوئے ۔
’’دیکھو عامر!اسلم تم سے دو ماہ بڑا ہے اور سمجھ دار بھی ہے اس کی ہر بات ماننی ہے مجھے شکایت کا موقع نہ ملے۔‘‘
’’ابا جی!آپ بے فکر ہو جائیں ہم دونوں آپ کو شکایت کا کوئی موقع نہیں دیں گے۔‘‘
’’ جیتے رہو۔اچھا اب میں چلتا ہوں۔اپنا خیال رکھنا۔رب کے حوالے۔‘‘
’’اللہ حافظ ! ‘‘ وہ دونوں سے گلے ملے اور چل دیے۔وہ دونوں ابّا کو جاتا دیکھتے رہے۔
٭٭٭٭
ادھر کیلنڈر پر دو سال آگے سرکے ، ادھر دونوں نے ایف۔اے کر لیا ۔ اس نے حسبِ معمول اوّل پوزیشن حاصل کی ۔ ماسٹر جی بھی لاہور آگئے تھے ۔ ریحان نے ایف۔ایس۔سی میں داخلہ لے لیا ۔ عامر نے اپنی خواہش پر فوج میں کمیشن کے لیے اندراج کروایا اور تیاری کرنے لگا ۔ اسلم کی خواہش تھی کہ گورنمنٹ کالج میں داخلہ لے مگر کہہ نہ پاتا ۔ ماسٹر جی اس کے دل کی خواہش جان گئے اور وہیں داخلہ کروا دیا ۔ تاریخ اور اردو ادب اس کے بنیادی مضمون تھے ۔ گورنمنٹ کالج کی فضا ،علم وادب کی محفلیں اور قابل اور سرگرم اساتذہ اس کے جوہر کھلنے لگے ۔ وہ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینے لگا ۔ اس نے بی۔اے امتیازی نمبروں سے پاس کیا ۔ ماسٹر جی کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا ۔ ان کی محنت کا ثمر بڑا شیریں تھا ۔ عامر آج کل کوئٹہ میں تعینات تھا ۔ ریحان بھی کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں داخلہ لے چکا تھا ۔ اُس نے اسی کالج میں ایم۔اے اردو میں داخلہ لے لیا جہاں سے اردو ادب کے کئی نامور ستارے اپنی پیاس بجھا کر نکلے تھے۔
٭…٭…٭
عامر کو چھٹی ملتی تو آ پاتا ، ریحان کی پڑھائی مشکل تھی اس لیے وہ ابا اماں کو زیادہ وقت دینے لگا ۔ کالج سے آکر ابا جی کے پاس بیٹھتا ، ملکی حالات اور روز کی خبروں پر تبصرے ہوتے ، ریڈیو پاکستان کی نشریات سنی جاتی ۔ لاہور تبادلہ کرواتے ہی ماسٹر جی نے ساری جمع پونجی سے بڑی مناسب قیمت میں یہ کشادہ گھر خرید لیا تھا ۔ قدیم طرز کا بنا ہوا یہ مظبوط گھر کسی ہندو رئیس کا تھا ۔ کشادہ کمرے،چاروں طرف گول ستونوں والا برآمدہ،وسیع سرخ اینٹوں والا صحن جس کے وسط میں فوارہ اور اطراف میں گھاس کے قطعے کیاریاں اور درخت تھے ۔ تین چار سالوں میں ان سب نے مل کر اس گھر کی شان کے مطابق فرنیچر اور دوسرا سامان لے لیا ۔
اسے دیکھ کر اسلم کو اپنی ماڑی یاد آجاتی ۔ لاہور میں گلابی جاڑا اترا تھا ۔ آج چھٹی تھی اور سورج بھی سج دھج کے نکلا تھا دھند کہیں دم دبا کر بھاگ گئی تھی ۔ وہ اماں اور ابا کے ساتھ دھوپ سینک رہا تھا ۔ اماں اس کے سر میں مالش کر رہی تھی۔
’’ دیکھ پتر!تم تینوں اپنے اپنے کام دھندوں میں لگے رہتے ہو ۔ ہم بڈھا بڈھی اتنے بڑے گھر میں بولائے بولائے پھرتے ہیں ۔ میں سوچ رہی ہوں تیرا ویاہ کر دوں کوئی پسند ہے تو بتاؤ۔‘‘
’’اماں ! ابھی میری تعلیم مکمل نہیں ہوئی وہ کپتان بر سر روزگار ہے اس کی کر دیں ۔‘‘
’’ نہ اس کی کیوں بڑا تُو ہے پہلے تیری ہوگی اور تو پڑھتا رہ ووہٹی جانے اور ہم جانیں ۔ ‘‘ وہ ابا جی کی طرف مڑا۔
’’ آپ ہی سمجھائیں اماں کو ۔ چھوٹا بڑا کچھ نہیں ہوتا ۔ میں ابھی خود کو اس قابل نہیں سمجھتا ۔ جب وقت آئے گا خود کہوں گا آپ سے ۔ آپ بس عامر کا سوچیں آج ہی خط لکھتا ہوں اسے ۔‘‘
’’ چل تو اس کو منا ۔ ورنہ تُو ہی گھوڑی چڑھے گا میں نے اب بہو لانی ہی لانی ہے۔‘‘ اماں نے تیل کی شیشی کاڈھکن بند کرتے ہوئے کہا۔ وہ کچھ دیر بیٹھا پھر تیار ہونے کے لیے اندر چلا گیا اسے ایک دوست کی طرف جانا تھا۔
٭…٭…٭
اس نے شاندار ریکارڈ برقرار رکھتے ہوئے ایم۔اے میں گولڈ میڈل لیا ۔
بے سروسامانی کے عالم میں اکیلا پاکستان آنے والا یہ بچہ خوش قسمت تھا کہ اسے ماسٹر شکور مل گئے اور آج وہ اس وراثت کا مالک تھا جو چرائی نہیں جا سکتی ۔ ابا اور اماں بہت خوش تھے ۔ عامر بھی آیا ہوا تھا، آج کل وہ گوجرانوالہ میں تعینات تھا ۔ ابا جی نے اس کی کامیابی کی خوشی میں سب دوست احباب کے لیے شاندار ضیافت کا اہتمام کیا ۔ اماں نے شادی کے لیے اصرار کیا مگر وہ ٹال گیا ۔ ابا جی کے جاننے والوں میں پٹھان کوٹ کے مہاجر نکل آئے تھے ۔ لڑکی کنیئرڈ کالج میں پڑھتی تھی سو عامر کی نسبت ٹھہرا دی گئی۔
٭…٭…٭
وہ گورنمنٹ کالج میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر تعینات ہوا ۔ پطرس بخاری،صوفی غلام مصطفیٰ تبسم،فیض احمد فیض،اشفاق احمد اور بانو قدسیہ جیسی قد آور شخصیات کے قدموں کے نشان گورنمنٹ کالج کے کشادہ کمروں،ہال،لمبی راہداریوں اور وسیع و عریض دالانوں پر ثبت تھے ۔ اس کے لیے یہ اعزاز کی بات تھی کہ جس مادر علمی میں اس نے چار سال پڑھا وہیں سے پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کر رہا تھا۔
٭…٭…٭
پروفیسر جمالی دو ماہ کی رخصت کے بعد آج ہی ڈیپارٹمنٹ آئے تھے ۔ وہ سٹاف روم میں بیٹھے فیض احمد فیض کی کتاب زندان نامہ کا مطالعہ کر رہے تھے کہ ایک نوجوان دروازہ کھول کر اندر آیا ۔ ساڑھے پانچ فٹ سے نکلتا ہوا قد،متناسب جسامت،گندمی رنگت،سلیقے سے جمے بال،ترشی ہوئی مونچھوں صاف داڑھی والا نوجوان پینٹ کوٹ پہنے انہیں سلام کرتا ایک طرف بیٹھ گیا ۔ پروفیسر جمالی نے کتاب بند اور کھنکار کر اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔
’’اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو تم مجھے نئے نئے لگتے ہو۔‘‘
’’جی سر!میں حال ہی میں تعینات ہوا ہوں ۔ اسلم نذیر نام ہے میرا ۔ یہی سے بی۔اے اور ایم۔اے کیا ہے ۔ آپ کو پہلے نہیں دیکھا ۔ ‘‘
’’مجھے پروفیسر جمالی کہتے ہیں ۔ میں اورئینٹل کالج سے ادھر آیا ہوں ۔ دو ماہ کی چھٹی کے بعد آج پہلا دن ہے ۔ ‘‘
’’ویسے اسلم میاں!مجھے اپنے چہرہ شناسی کے فن پر پورا یقین ہے ۔ مجھے لگتا تمہاری آنکھوں میں کوئی غم ٹھہرا ہوا لگتا ہے ۔ برا نہ مناؤ تو میں جاننا چاہتا ہوں کہ آج میرا اندازہ کتنا درست ہے۔‘‘
’’ سر!یہ آپ کی کرم نوازی ہے کہ آپ نے اپنی ظرف نگاہی سے میرے اندر اتر کر دیکھا ۔‘‘ اُس نے راوی کے اُس پار سے لے کر راوی کے اِس پار تک کی تمام داستان ان کے گوش گزار کر دی۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page