Azadi Kay Is Safar Main : Komal Sadiq
’’ پا ! اماں ، آپا اور سکینہ کو بھی لیے چلتے ہیں ساتھ ۔ ‘‘
’’ہاں!جب حملہ ہوا حملہ سب کو چاچا حکیم کے گھر اکھٹا کر رہی تھی ۔ آؤ ادھر دیکھتے ہیں ۔ ‘‘ وہ حکیم صاحب کے گھر داخل ہوئے تو ہر طرف ان کے گھر جیسی تباہی تھی ۔ اکرم نے آگ سے مشعل روشن کی اور کنویں میں جھانک کر دیکھا ۔ اس کی ماں کا دوپٹہ منڈیر سے اٹکا کنویں کے اندر جُھول رہا تھا ۔ اسے یقین ہو گیا کہ ماں اور بہنیں ناموس بچانے کے لئے کنویں میں کود گئی ہیں ۔ وہ واپس مڑا اور اسلم کو گلے سے لگا لیا۔
’’ چھوٹے! ہم اکیلے رہ گئے ابا کے ساتھ ساتھ اماں اور بہنیں بھی گئی ۔ چل جلدی نکل ادھر سے۔ ‘‘ وہ بستی سے نکلے اور کھیتوں سے ہوتے ہوئے آگے بڑھنے لگے ۔ ہنگامہ خیز رات کی اوٹ سے افسردہ دن نکلا تو انہوں نے دیکھا فصلوں کے اندر سے چھپتے چھپاتے بچتے بچاتے لٹے پٹے زخمی ‘ تباہ حال مر د ،عورتیں ، بچے اور بزرگ آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں ۔ وہ بھی سب کے ساتھ مل گئے ۔ سارا دن چھپتے چھپاتے وہ کنارراوی پہنچ گئے ‘ جس کے پار پاکستان تھا۔ان کے ضلع گورداسپور کی تحصیل شکر گڑھ تھی ۔
ساون بھادوں کی بارشوں کی وجہ سے دریا میں پانی کا بہاؤ تیز تھا ۔ رفتہ رفتہ گورداسپور کے علاوہ ڈلہوزی سے بٹالا تک کے لوگ بھی ادھر پہنچے ہوئے تھے ۔ لوگوں کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی تھی ۔ بیڑیاں اور کشتیاں کم تھیں اور ملاح جو نہ ہندو تھے نہ سکھ نہ مسلمان وہ بس قارون کے جانشین تھے جن کا دین صرف پیسہ تھا ۔ وہ منہ مانگے داموں لوگوں کو پار پہنچا رہے تھے ۔ اکرم نے کشتی والے سے معاملہ طے کرنے کی کوشش کی ۔
’’دیکھ بھئی!سو روپیہ فی سواری کشتی میں بٹھاؤں گا ۔ اگر جانا ہے تو صبح سورج نکلتے ہی آ جانا ۔ ‘‘ ملاح نے بے لچک انداز میں اپنا بھاؤ بتایا۔
’’ اچھا ! ‘‘ وہ واپس گھاٹ سے ہٹ کر کھیتوں میں آ گیا ۔ جہاں وہ سب ڈیرے ڈالے بیٹھے ہوئے تھے ۔ اس نے پو ٹھتے ہی ریزگاری گنی کل 150 روپے تھے ۔ اس نے اسلم کا ہاتھ پکڑا اور گھاٹ پر آگیا ۔ دریا میں طغیانی تھی اس لئے ملاحوں نے کشتیاں نہیں اتاری تھیں ۔ انہیں مجبوراً واپس جانا پڑا ۔ دوپہر کو جب دریا پرسکون ہوا تو ملاح نے سیٹی بجائی ۔ سب گھاٹ پر آگئے۔
’’ چچا ! میرے پاس 150 روپے ہیں اور کچھ نہیں ہمیں پار پہنچا دو ۔ ‘‘ اس نے لجاجت سے کہا۔
’’200 لاؤ تو دونوں جاؤ گے ورنہ ایک ہی پار جائے گا ۔ ‘‘ اکرم نے اسلم کو کشتی میں بٹھایا اور ملاح کو سو روپیہ دے دیا ۔
’’اسے پار لے جاؤ۔‘‘
’’ نہیں بھیا!میں جاؤں گا آپ کے ساتھ ورنہ نہیں ۔ ‘‘ وہ کشتی سے نکل آیا اور بھائی سے چمٹ گیا۔
’’ چھوٹے ! ضد نہ کر ۔ تجھے امّاں کی قسم تو جا ۔ میں آجاؤں گا ۔ اُدھر چاچے کو ڈھونڈنا ۔ میں بھی آ جائوں گا ۔ ‘‘ اس نے نمناک آنکھوں سے اس کے ماتھے پہ بوسا دیا اور پھر کشتی میں بٹھا دیا۔ گن کر 50 روپے اس کے ہاتھ پر رکھے دیے ۔ جلد ہی کشتی لوگوں سے بھر گئی اور ملاح نے لنگر کھول دیئے ۔ کشتی راوی کی بپھری لہروں پر پاکستان کی طرف بڑھنے لگی ۔
’’ پا ! رب راکھا ۔ ‘‘ اسلم نے ہاتھ اٹھا کر اکرم کو الوداع کیا جو راوی پار کھڑا رہ گیا تھا ۔ وہ کنارے سے چند فرلانگ آگے آئے تھے کہ اچانک پھر سکھوں کا حملہ ہو گیا ۔ اسلم نے اپنی آنکھوں سے اکرم کو گولیاں کھا کر راوی میں گرتے دیکھا ، جہاں سینکڑوں مسلمانوں کی لاشیں بہہ رہیں تھیں ۔ وہ بے دم ہو کر ایک مسافر کی گود میں گر گیا اور کشتی بہتے بہتے راوی کے اِس پار کنارے سے آ لگی۔
٭…٭…٭
راوی کے اِس پار جب کشتی کنارے سے لگی تو وہ پاک سر زمین پر اترا ۔ حسن پور سے ساتھ لایا ہوا پرچم دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر سر بلند کیا اور پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا ۔ اس نے ایک نظر راوی پار دیکھا جدھر اماں،ابا، بھائی اور بہنوں کے بے گور و کفن لاشے تھے ۔ جنہوں نے مل جل کر ایک آزاد وطن کا خواب دیکھا تھا مگر ریڈ کلف نے کاغذ کے نقشے پر لکیر کھینچ کر لاکھوں افراد کی زندگیوں پر لکیر کھینچ دی تھی ۔ وہ پھوٹ کر رونے لگا۔
٭…٭…٭
جب سے گورداسپور کی تین تحصیلیں بھارت کی طرف جانے کا اعلان ہوا ۔ ماسٹر عبدالشکور صاحب اور ان کا خاندان سخت پریشانی میں مبتلا تھا ۔ ان کا گھر بار اور عزیز رشتہ دار سب لکھوال ہی تھے ۔ ماسٹر صاحب کی تعیناتی شکر گڑھ ہوئی تھی اس لیے ان کا خاندان بھی ادھر ہی تھا ۔ وہ آج کل نورکوٹ میں تعینات تھے ۔ وہاں سے ایک کلو میٹر دور کوٹلی جٹاں میں ان کی رہائش تھی ۔ جب سے مہاجروں کی کشتیوں کی آمد کی اطلاع ان تک پہنچی تھی ۔ وہ ہر روز راوی کنارے گھاٹ پر جا کر انتظار کرتے مگر کوئی نہ آتا ۔ سورج بحر فلک میں تیرتا تیرتا مغربی کنارے سے جا لگا تھا ۔ ہوا کے دوش پر اِدھر اُدھر ڈولتی لہروں کو شفق نے بسنتی رنگ میں رنگ دیا تھا ۔ سارے دن کی حبس کے بعد ہوا نے بادبان کھول دیے تھے جس سے شام خوشگوار ہو گئی تھی ۔ گھاٹ پر چہل پہل تھی ۔ شکور صاحب ایک پتھر پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک کشتی کنارے سے آن لگی ۔ لوگ اترنے لگے ۔ اسی بھیڑ بھاڑ میں انہیں کم سن بچہ نظر آیا جو ہاتھوں میں جھنڈا اٹھائے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہوئے رو رہا تھا۔ ان کے وجود میں بجلی دوڑ گئی ، پھٹے ہوئے کپڑے،ننگے پاؤں ، الجھے بالوں اور سوکھے لبوں والا یہ بچہ ان کے سگے تایا ذاد نذیر احمد کا چھوٹا بیٹا اسلم نذیر تھا ۔ وہ بھاگتے ہوئے اس تک پہنچے ۔
’’ او!اسلم!تو۔ ‘‘ اور اسے گلے لگا لیا ۔ زار و قطار روتا اسلم انہیں پہچان کر ان سے چمٹے دھاریں مار مار کر رونے لگا ۔ کچھ دیر بعد انہوں نے اسے علیحدہ کرتے ہوئے باقیوں کا پوچھا ۔
’’ چاچا!سب مارے گئے ۔ اباگاؤں کی رکھوالی کرتے شہید ہوئے، اماں اور بہنیں کنویں میں کود گئیں اور پا اکرم راوی کے اُس پار شہید ہوئے ۔ میں اکیلا بچا ہوں چاچا ۔ ‘‘ اس نے ایک ہی سانس میں آبلہ پائی کی پوری داستان سنا دی ، بلکہ وہ خود سراپا داستاں تھا ۔
لٹا پٹا دس سال کا بچہ جس نے اتنی سی عمر میں وہ سانحات دیکھے جس کے لئے فولاد کا جگر چاہیے ۔ شکور صاحب نے اُسے گلے سے لگا لیا ۔
’’نہ رو میرا بچہ !دیکھ میں تیرا چاچا ہوں چل میرے ساتھ ۔ ‘‘ وہ اسے ساتھ لیے بیل گاڑی پر بٹھا کر کوٹلی جٹاں کی طرف چل پڑے ۔ اندھیرا دبے پاؤں کوٹلی جٹاں کے درو بام پہ اتر آیا تھا ۔ نظیر فاطمہ عرف نظیراں تنور پر روٹیاں لگا کر نعمت خانے کی طرف آئی ۔ 10 سالہ عامر شکور اور 8 سالہ ریحان شکور لالٹین میز پر رکھے صحن میں بچھی چارپائیوں پر بیٹھے پڑھ رہے تھے ۔ وہ سب انتظار کر رہے تھے کہ ماسٹر جی آئیں تو کھانا کھا لیں ۔ اتنے میں گلی میں بیل گاڑی رکی اور چند ساعتوں بعد دروازہ کھول کر وہ اندر آئے۔
’’ نظیراں ! او نظیراں ! دیکھ آج خالی ہاتھ نہیں لوٹا میں ۔ ‘‘ نظیراں دوپٹے سے ہاتھ پونچھتے باہر نکلی۔
’’ ارے!یہ تو اپنا اسلم ہے ۔ باقی سب کدھر ہیں ؟ ‘‘ اس نے اسلم کو پیار کرتے ہوئے کہا۔
’’نظیراں ! بس یہی زندہ بچا ہے ۔ میرا یار نذیر ، ہماری پھوپھی ذاد ہاجرہ اور بچے سب مارے گئے ۔ باقی برادری کی بھی کوئی خبر نہیں ۔ لگتا ہے میرے تمہارے سب بہن بھائی مارے گئے ۔ ‘‘ ماسٹر جی چارپائی پر بیٹھ گئے ۔ ان کی آنکھوں سے آنسو نکل کر داڑھی میں جذب ہونے لگے ۔ نظیراں نے ٹھنڈی آہ بھری ۔
’’رب خیر کرے کیا پتا کبھی آ ملیں ۔ اسلم بھوکا ہے میں کھانا چنتی ہوں کھا لیں پھر نہلا دوں گی ۔ ‘‘ وہ دونوں بھائی بھی اس کے نزدیک آ گئے ۔ نظیراں نے پھرتی سے تندوری روٹیاں ، مرغی کاسالن اور حلوے کی قابیں لا کر میز پر رکھیں ۔ سب ہاتھ دھو کر کھانا کھانے لگے ۔ کئی دنوں کی بھوک تھی اس نے سیر ہو کر کھانا کھایا ۔ کھانے کے بعد نظیراں نے اسے نہلا کر عامر کے کپڑے پہنا دیے ۔ عشاء تک تینوں بچے صحن میں بچھی چارپائیوں پر سو چکے تھے ۔ وہ دونوں میاں بیوی جاگ رہے تھے ۔
’’دیکھ نظیراں ! اسلم کا اب ہمارے سوا کوئی نہیں ہے اور ہمارا خون بھی ہے ۔ میں اور نذیر ایک تھالی میں کھا کر بڑے ہوئے ہیں ۔ مجھے نہیں لگتا اب ہمارا کوئی پیارا یہاں آئے گا ۔ یہ اپنی جنم بھومی کی واحد نشانی ہے تو آج سے اسے ہمارا بیٹا سمجھ ۔ میں روزِ قیامت اس کے ماں باپ کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا چاہتا ۔ ‘‘
’’ یہ بھی کوئی کہنے کی بات ہے ماسٹر جی ! میرا کون سا غیر ہے تایا کا پوتا ہے اور پھوپھی کا نواسا ۔ آپ فکر نہ کریں عامر اور ریحان سے افضل رکھوں گی انشا ء اللہ ۔اب سو جائیں صبح سکول بھی جانا ہے ۔ ‘‘ انہوں نے ٹوپی اتر کر رکھی اور لیٹ گئے ۔ نظیراں بھی لیٹ گئی ۔ رات بھیگ چکی تھی کہ اسلم چیخ مار کر اٹھا ۔
’’ بلوائی آگئے ! بلوائی آگئے ! آگ ! آگ ! اماں، ابا…‘‘وہ چیخ رہا تھا ۔ نظیراں فوراً اس کے پاس آئی ۔
’’ میرابچہ ! کوئی بلوائی نہیں ہے اِدھر ۔ سو جا خواب دیکھا ہے تو نے ۔ ‘‘ اس نے تھپک تھپک کر اسے سلا دیا ۔ پلکیں آنسوئوں سے بوجھل تھیں اور وجود ہچکیوں سے کانپ رہا تھا ۔ اسے دیکھ کر سب کے چہرے نگاہوں میں پھر گئے اور وہ بھی بے آواز رونے لگی ۔
٭…٭…٭
اگلے ہی دن سکول سے واپسی پر ماسٹر صاحب اس کے لیے کتابیں،بستہ،جوتے اور کپڑا لے آئے ۔ مختلف رنگوں کا کپڑا درذی کو چند جوڑے بنا نے کے لیے دے دیا ۔ نظیراں سارا دن اس کی دل جوئی میں لگی رہی ۔ اگلے ہی دن اس نے عامر کے ساتھ پانچویں جماعت میں بیٹھنا شروع کر دیا ۔ ان دونوں کی محبت اور توجہ اور عامر اور ریحان کی دوستی اور بھائی چارہ اسے زندگی کی طرف واپس لانے لگا ۔ وہ کھلنڈرا سا اسلم تو سرحد پار رہ گیا تھا ۔ اب ایک سنجیدہ،خاموش اور اداس آنکھوں والا اسلم تھا ۔ رفتہ رفتہ وہ ان کے رنگ میں رنگتا گیا مگر اس کی آنکھوں میں جما دکھ اور ہجرت کی صعوبتوں کا ککر نہ پگھل سکا ۔ وہ راتوں کو اکثر ڈر کر اٹھ جاتا اور پیاروں کی یاد میں اشکوں کے موتی پروتا رہتا ۔