کہانی کو بہتر کیسے بنائیں: ماریہ نواز

نئے قلم کاروں کے لیے چند تجاویز
جب میں نے لکھنا شروع کیا تو ساتھ پڑھنا بھی شروع کیا تاکہ علم ہو سکے لکھتے کیسے ہیں۔ استادوں اور مشاق لکھنے والوں کے کہانی نویسی کے بارے میں خیالات بھی پڑھے۔ کچھ ناولوں کو یہ جاننے کے لیے پڑھا کہ وہ مشہور کیوں ہوئے۔ اچھے ناولوں کو اس لیے دوبارہ بھی پڑھا کہ وہ صرف نقادوں ہی کو کیوں پسند آئے، عوام الناس کو کیوں نہیں۔
اس لکھنے پڑھنے کے مختصر سفر میں جو سمجھ پائی ہوں، اسے مختصراً قلم بند کر رہی ہوں۔
(یہ کوئی ادبی مضمون نہیں میرے محدود علم اور مشاہدات کا خلاصہ ہے جو خالصتاََ پاپولر فکشن کے متعلق ہے۔)
کچھ عناصر پر بات کروں گی جن پر کام کر کے تحریروں کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
کہانی
سب سے پہلے آتی ہے کہانی۔ کہانی وہ حالات و واقعات ہیں جنہیں آپ قلم بند کر رہے ہیں۔ پلاٹ ان حالات و واقعات میں سے چھانٹے گئے ان واقعات کا تسلسل ہے جو کہانی کو آگے بڑھاتا ہے۔ پلاٹ میں شروعات، درمیانی حصہ اور اختتام لازم ہے۔ اگر آپ کی تحریر میں یہ واضح نہیں ہے تو پلاٹ پر نظر ثانی کیجئے۔ پلاٹ میں ربط شرط ہے، گزشتہ واقعات اگلے واقعات کی وجہ بننے چاہئیں۔ کہانی آپ دو طریقے سے سنا سکتے ہیں۔ آپ پڑھنے والے کو بتا سکتے ہیں کہ کیا ہوا یا اسے دکھا سکتے ہیں۔ یعنی اس بات کو ایک سین کی شکل میں لکھ سکتے ہیں۔ احسن طریقہ یہ ہے کہ بتایا نہ جائے دکھایا جائے۔ یعنی جس قدر ممکن ہے کہانی کو سینز کی شکل میں آگے بڑھایا جائے۔ سین دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن میں آپ کرداروں کی شخصیت اور منظر نامے کو پڑھنے والے پر واضح کرتے ہیں اور دوسرے وہ سینز جن میں پلاٹ آگے بڑھایا جاتا ہے۔
کرداروں کی شخصیت اور حالات کو واضح کرنے والے سینز کی بھرمار نہ کیجیے۔ چلبلی ہیروئن کا چلبلا پن دکھانے کے لیے ایک دو سینز بہت ہیں، اب کہانی آگے بڑھائیے۔ چلبلی کا چلبلا پن ساتھ ساتھ دکھاتے جائیے۔ کچھ کہانی نویسی کے ماہرین کے بقول تو ہر سین میں پلاٹ آگے بڑھنا چاہیئے اور دلچسپ سے دلچسپ سین کو تبھی شامل کیا جانا چاہیئے جب وہ پلاٹ میں اہم ہو۔ ذاتی طور پر میں یہ مشورہ نہیں دوں گی کیونکہ پڑھنے والے دلچسپ سینز ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ مگر ایک جیسے سینز کی بھرمار سے بہرحال گریز کیجیے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ پلاٹ قابل یقین ہونا چاہیئے (اگر آپ فینٹسی فکشن نہیں لکھ رہے) فطری اور تکنیکی لحاظ سے تو زیادہ تر لکھاری قابل یقین ہی لکھتے ہیں مگر ایک چیز جس میں اکثر ڈنڈی مار دی جاتی ہے وہ ہے کرداروں کی نفسیات۔ کرداروں کی نفسیات میں تسلسل ضروری ہے۔ بہت پیار کرنے والے ماں باپ اچانک ظالم جابر بن جاتے ہیں کیونکہ ان کی بیٹی کو محلے کے لوفر لڑکے نے چٹھی لکھ دی ہے اور غصہ بھی ایسا کہ لڑکی کی لولے لنگڑے اور اندھے ہیرو سے شادی کروا کر بھی معاف نہیں کرتے۔ (یہ اور بات ہے کہ ہیرو کی آنکھیں اور ٹانگیں بالکل ٹھیک نکلتی ہیں بعد میں)۔ اچھے لوگ راتوں رات برے نہیں ہوتے، برے لوگ رات و رات اچھے نہیں ہوتے۔ ہاں لوگ بدل بھی جاتے ہیں اور کچھ واقعات پر ان کا ردعمل عمومی ردعمل سے بہت زیادہ بھی ہوتا ہے۔ مگر اس کے بھی محرکات ہوتے ہیں، جن کی وضاحت نا کی جائے تو کہانی عقل سے ماورا لگتی ہے۔
کردار
دوسری بہت اہم چیز ہیں کردار۔ ایک بات یاد رکھیے۔ کہانی ایشوز کی، موضوعات اور واقعات کی نہیں ہوتی، کہانی کرداروں کی ہوتی ہے۔ کہانی میں کردار ہی وہ عنصر ہے جس سے پڑھنے والا کنیکٹ کر پاتا ہے، لوگ کہانی بھول جاتے ہیں مگر کردار یاد رکھتے ہیں۔ اپنے کرداروں سے اچھی جان پہچان بنا لیجیے کیوں کہ آپ انہیں پہچانیں گے تبھی یہ آپ کی پہچان بنیں گے۔ سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ آپ کا مرکزی کردار کون سا ہے۔ کچھ کہانیوں میں‘‘ہیروئن‘‘ مرکزی کردار نہیں ہوتی، صرف ہیرو کا لو انٹرسٹ ہوتی ہے اور کچھ کہانیوں میں ولن بھی مرکزی کردار ہوتا ہے۔ مرکزی کردار وہ ہیں جن کے گرد پلاٹ گھوم رہا ہے اور ثانوی کردار کا ایک سپورٹنگ رول ہے۔ ثانوی کرداروں کی کہانی سب پلاٹ کے طور پر لکھی جا سکتی ہے، مگر یہ اس صورت میں ہونا چاہیئے جب ثانوی کردار کی کہانی کا پلاٹ میں پلاٹ یا اس کے مرکزی خیال سے مطابقت رکھتا ہو۔ ہیرو کے بھائی نے ہیروئن کو اغوا کرنے میں ہیرو کی مدد کی ہے۔ لہٰذا اس کار خیر کے انعام کے طور پر آپ نے اسے ایک سائیڈ ہیروئن اور دو گانے دے دیئے ہیں تو یہ کوئی اچھی بات نہیں۔ ہاں اگر اس کو ہیروئن کی بہن نے دھوکا دیا جس کی وجہ سے وہ پاگل خانے پہنچ گیا ہے اور اسی کا بدلہ لینے کے لیے ہیرو نے ہیروئن کو اغوا کیا ہے، تو بے شک آپ اس کی وہاں کسی نرس یا ڈاکٹر سے سیٹنگ کروا لیں اور ان کا رومانس بھی لکھ ڈالیں۔ آخر اسی کی وجہ سے روز ہیروئن کی درگت بن رہی ہے۔
کرداروں کی بھیڑ مت لگائیے تاکہ آپ اپنے کرداروں کے ساتھ انصاف کرسکیں۔ دو تین کپل غیر ضروری طور پر ایک ناول میں مت ڈالیے۔
اچھی کردار نگاری بہت عام سی کہانی کو خاص کر دیتی ہے۔ مگر کردار نگاری ہے کیا؟
ہیرو کا چھت پھاڑ قد، چوڑا سینہ اور گھنی مونچھوں تلے مسکراتے عنابی ہونٹوں کی تصویر کشی کر دیجئے (نام بھی بھلے چودھری درمیغان سکندر شاہ لغاری رکھ دیجئے)۔
ہیروئن کے کتابی چہرے اور نشیلے نینوں کا بھی تذکرہ کر دیجئے مگر کردار نگاری یہاں ختم نہیں ہوتی۔ وہ زندگی سے آخر چاہتا کیا ہے؟ کس کو ڈھونڈ رہا ہے؟ کس سے بھاگ رہا ہے؟ کیا درد ہے، کیا خوف ہیں اس کے۔ ان سوالوں کے جواب آپ پہلے خود کو دیں پھر کہانی میں شامل کریں۔ یہ بھی کردار نگاری کا حصہ ہے۔
قاری کو کردار سے باندھنے کا سب سے موثر طریقہ ہے اس کے دل میں کردار کے لیے ہمدردی پیدا کرنا ہے۔ قاری جب ایک کردار سے ہمدردی محسوس کرتا ہے تو پھر اس کا سفر فالو کرتا ہے اور اسے جیتتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔ مضبوط سے مضبوط کردار میں بھی ایسی کمزوریاں رکھی جاتی ہیں جن کی وجہ سے قاری ان کے لیے اپنے دل میں نرمی محسوس کر سکے۔ اب وہ کمزریاں کیا ہو سکتی ہیں جن کی وجہ سے قاری کو ہمدردی میں مبتلا کیا جائے یہ قاری کی نفسیات پر منحصر ہے۔ قاری جس قدر کردار کے مصائب اور حالات سے ریلیٹ کرے گا، اتنا ہی اس کا درد اس کے لیے حقیقی ہو جائے گا۔ اکثر خواتین مرد کے مرکزی کرداروں والی کہانیاں پسند نہیں کرتیں اور مرد کے کردار کو عام طور پر عورت (ہیروئن) کے ہیرو یا نجات دھندہ کے طور پر دیکھ کر اس کی محبت میں مبتلا ہوتی ہیں۔ اسی طرح مرد حضرات زیادہ تر مردوں کی کہانیاں پسند کرتے ہیں (یہ عمومی رجحان ہے، ہر انفرادی کیس میں ایسا نہیں)۔ غرض یہ کہ ریڈر آپ کے کردار کے ساتھ کس حد تک کنیکٹ کر پاتا ہے۔ اس کا تعلق اس کی اپنی نفسیات اور تجربات کے ساتھ ہے۔ آپ اگر مشہور کہانیاں لکھنا چاہتے ہیں تو ٹارگٹ ریڈر کی نفسیات کو ذہن میں رکھیے۔
کردار کہانی میں ایک سفر سے گزرتا ہے۔ یعنی وہ حالات وواقعات جن سے گزر کر اس کی زندگی میں بدلاؤ آتا ہے۔ اچھے لکھے گئے کرداروں میں یہ سفر صرف بیرونی نہیں ہوتا بلکہ انسان اندرونی طور پر بھی بدلتا ہے، اس کی سوچ بدلتی ہے، اسے اپنے سوالوں کے جواب مل جاتے ہیں، اس کے کردار کی خامیاں دور ہو جاتی ہیں، وہ کچھ سیکھتا ہے۔ اس کو character arc کہتے ہیں۔ تقریباً ہر آئیکونک کردار میں آپ کو کریکٹر آرک مل جائے گی۔ سالار سکندر، نام تو سنا ہو گا۔
آپ جو کردار لکھ رہے ہیں اس کا بیرونی سفر کیا ہے؟ اور اندرونی سفر کیا ہے؟ لکھتے ہوئے یہ سوال خود سے کیجیئے۔
کردار کی بول چال اور حرکات و سکنات کا بیان اسے پرکشش بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جو کردار ہم لکھتے ہیں انہیں ہم نے اکثر اصل زندگی میں نہیں دیکھا ہوتا ایسے میں انہیں لکھنے سے پہلے بہتر ہے ان جیسے اچھے لکھے ہوئے کرداروں اور ان کے ماحول کو پڑھ لیا جائے۔ جیسے آپ اگر ایک ڈیشنگ، ڈیسنٹ، مہذب اعلٰی تعلیم یافتہ اپر مڈل کلاس کا ہیرو لکھنا چاہتے ہیں تو فرحت اشتیاق کے ہیروز پر غور کر لیجیے۔
اب آتے ہیں اس چیز کی طرف جو قاری کو باندھنے میں اہم ترین کردار ادا کرتی ہے۔ وہ ہے احساسات کا بیان۔ گھسی پٹی تھیم ہے، چوری کا پلاٹ ہے، تکنیکی غلطیاں ہیں، لوجک گھاس چرنے گئی ہوئی ہے، پھر بھی اگر آپ قاری کی آنکھوں میں آنسو لانے میں کامیاب ہو گئے ہیں تو ہٹ ہیں آپ۔۔۔ اور اگر وہ آنسو پونچھ کر مسکرا بھی رہا ہے تو پھر تو سپر ہٹ ہیں۔ احساسات لکھنا ایک آرٹ ہے۔ کچھ رائٹرز کو یہ فن ودیعت ہوتا ہے مگر کافی حد تک اسے سیکھا بھی جا سکتا ہے۔ جذبات کو ہمیشہ سینز کی فارم میں لکھیے۔ بچہ ماں باپ سے بچھڑ رہا ہے، دو پیار کرنے والے بچھڑ رہے ہیں، تفصیل میں لکھیے۔ کس کی آنکھ سے آنسو ٹپکا، کس کے دل پر گرا، کس نے کیا کہا، کس نے کس کا ہاتھ چھوڑا اور اس سین سے پہلے بلڈ اپ لکھیے۔ ایسے سین عموماََ تب بڑے پر اثر ہوتے ہیں جب کردار اچھے کی امید میں ہوتا ہے اور برا ہو جاتا ہے۔ جن ناولوں کو پڑھ کر آپ کو رونا آیا تھا یا دل گداز ہوا تھا انہیں نکال کر پھر پڑھیے اور سمجھنے کی کوشش کیجئے۔
اپنے کام کو خود تنقیدی نظر سے دیکھیے اور خامیاں سمجھیے۔ ویسی کہانی لکھیے جیسی آپ پڑھنا چاہتے ہیں کیونکہ وہی کہانی آپ سب سے اچھی لکھ سکتے ہیں۔ اچھا پڑھیے کیوں کہ پڑھنے ہی سے لکھنا آتا ہے۔
ایڈمن سے درخواست ہے کہ pdf download والا آپشن بھی رکھ دیں۔ تاکہ پسندیدہ تحریریں ڈاؤنلوڈ کی جا سکیں 🙏