افسانے

چنگڑیان : ایمان فیضان

’’باجی!اللہ کے نام پہ کچھ دی دیں۔‘‘ رشیدہ نے ہاتھ میں پکڑی کٹوری ادھیڑ عمر خاتون کی جانب بڑھائی جو تین چار شاپنگ بیگز سنبھالے رکشے میں چڑھ رہی تھی۔
’’ معاف کردو بی بی ٹوٹے نہیں ہیں۔‘‘ خاتون بیزاری سے اسے دھتکار کر اب ساتھ بیٹھی خاتون سے محو گفتگو تھی اور رشیدہ جو ابھی تک کٹوری پکڑے اس انتظار میں تھی کہ شاید ان خواتین میں سے کسی کا دل نرم پڑجائیں اور اس کی کٹوری میں دس یا بیس کا نوٹ ڈال دیں۔
’’ اچھی بھلی ہو ۔ بھلا کیا مجبوری ہے تمھاری جو یوں سوال کرتی ہو جا کے ، کوئی کام کاج کرو ۔ جس میں خودداری ہو وہ شدید مجبوری میں بھی مانگا نہیں کرتے ۔ دا بعضے خلق دہ خواست عادت وی(یہ بعض لوگ مانگنے کے عادی ہوتے ہیں ) ۔‘‘ ساتھ بیٹھی خاتون نے آخر میں پشتو میں کہا اور دس کا نوٹ اس کی کٹوری میں رکھتے ہوئے اسے بے تحاشا سنا بھی دیا مگر وہ بھی شاید کافی ڈھیٹ تھی ۔ کیونکہ لوگوں کی جلی کٹی سننا اس کے روز کا معمول تھا ۔ ننھی مروہ کا ہاتھ تھامے بنا کچھ کہے پلٹ گئی مگر مروہ شاید اب اتنی بھی چھوٹی نہیں رہی تھی ۔ وہ اب کافی حد تک سمجھدار ہوچکی تھی وہ ماں کا ہاتھ تھامے خاموشی سے آنسو پینے کی کوشش میں تھی مگر آنسو ایک بار پلکوں تک آجائے تو پھر رخسار پر پھسلنے سے انہیں کوئی نہیں روک سکتا۔
’’مروہ بچے کیا ہوگیا کیوں رو رہی ہو۔‘‘ جیسے ہی رشیدہ کا دھیان اپنی معصوم گڑیا کی جانب گیا فورا ہی پریشان ہوکر پوچھنے لگی۔
’’ماں!مجھے آپ کی بے عزتی بہت تکلیف دیتی ہے ۔ میں کوشش کرتی ہوں کہ یوں بیچ راستے میں نہ روؤں مگرمیرا اپنے آنسوؤں پر اختیار نہیں رہتا۔‘‘ مروہ کے لہجے میں دکھ اور احساس کے ملے جلے جذبات جھلک رہے تھے۔
’’اسی لئے تو میں تمہیں لاتی نہیں ۔ لوگوں کی باتوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیا کرتے ہیں ۔ یہ تو ہمارا کام ہے اور لوگ ایسے ہی اتنی آسانی سے ہمیں پیسے نہیں دیتے اس لئے برداشت کرنا پڑتا ہے۔‘‘ رشیدہ نے نیچے بیٹھ کر اسے سینے سے لگا لیا۔
’’لیکن ماں وہ عورت ٹھیک کہہ رہی تھی ۔ ہم کوئی کام کیوں نہیں کرتے ۔ ہم بھیک کیوں مانگتے ہیں ۔ ہم باقی لوگوں کی طرح مزدوری کرکے بھی تو پیسے کما سکتے ہیں۔‘‘ وہ ابھی تک اس عورت کی باتوں کو سوچ رہی تھی۔
’’تم نہیں سمجھو گی آؤ میرے ساتھ۔‘‘ رشیدہ اب دوبارہ کھڑی ہوکر اسے اپنے ساتھ گھسیٹتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔
٭…٭
وہ دونوں ابھی ابھی بھیک مانگ کر اپنے خیمے میں آئی ہی تھی کہ بارش شروع ہوگئی آج موسم ابر آلود تھا تبھی رشیدہ اور مروہ شہر سے واپسی پہ جلدی نکلے تھے اور وقت پہ گائوں پہنچ بھی گئے۔
’’ماں! اب پانی یہاں سے ٹپک رہا ہے۔‘‘ وہ زمین پر پڑی اپنی اور ماں کی بستر پر نظر پڑتے ہی ماں کو پکارنے لگی۔
’’ ہائے اللہ!اب اس کونے میں سوراخ ہوگئے ہیں ۔ تم جلدی سے یہ بستر ہٹادو یہاں سے ، ورنہ سارے گیلے ہوجائیں گے۔‘‘ وہ اتنا کہتے ہوئے خود تیزی سے خیمے پہ سوراخ والی جگہ پر بچھانے کیلئے بڑا سا پلاسٹک اور کپڑا لئے بارش کی پرواہ کئے بغیر باہر نکل گئی اور مروہ بھی تیز رفتاری سے سارے بستر ایک طرف کرنے لگی ۔ ماں اندر آئی تو پوری کی پوری بھیگی ہوئی تھی۔
’’ماں! آپ کپڑے بدل لیں میں آگ جلا لیتی ہوں۔‘‘ مروہ نے ماں کی طرف دیکھ کر کہا اور پھر اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے کونے میں پڑی لکڑیوں میں سے خشک لکڑیاں ڈھونڈنے لگی۔
’’نہیں تم آؤ پہلے پیسے گن لیتے ہیں کہ آج کتنے لائے ہیں۔‘‘ اس نے کپڑوں کے صندوق پر رکھی کٹوری اٹھائی تو مروہ بھی قریب آکر بیٹھی گئی ۔ کٹوری میں ہمیشہ کی طرح کچھ نئے اور کچھ پرانے مڑے تڑے دس اور بیس کے نوٹ ہی پڑے تھے ۔ کچھ سکے بھی تھے جو اب رشیدہ ایک ایک کر کے سیدھے کرتے ہوئے گن رہی تھی۔
’’تین سو تیس ، آج بارش ہوگئی ورنہ یہ پانچ سو تک ہوتے۔‘‘ وہ اب پیسے ہاتھ میں پکڑے اسی کپڑوں کے صندوق کو کھول کر کچھ دیکھ رہی تھی۔ ’’یہ رہے مل گئے۔‘‘
’’کیا ہے ماں۔‘‘ مروہ نے تجسس کے مارے پوچھا۔
’’پیسے ہیں ۔ میں نے بچا کے رکھے تھے خیمے کے اس مہینے کے کرائے کیلئے آٹھ سو یہ ہیں اور تین سو تیس ہم آج لائے ہیں۔ ایک ہزار کرایہ ہوگیا اور ایک سو تیس روپے ہم اپنی ضرورت کیلئے رکھ لیں گے۔‘‘ وہ بات کرتے کرتے آخر میں مسکرادی اور بیٹی کا گال تھپتھپایا۔
’’ماں ہم کب تک یوں ذلالت سے پیسے کمائیں گے۔ بھیک دینے والے اکثر ہم سے کہتے ہیں کہ ہم کام کرلیا کریں تو سچ کہتے ہیں ناں ۔ ماں ہم کام کیوں نہیں کرتے؟ ‘‘وہ پھر شہر والوں کی باتیں یاد کر کے روہانسی ہو گئی تھی۔
’’ کون ہے جو عزت سے کام نہیں کرنا چاہتا؟ مگر ہم جدی پشتی بھکاری ہیں ۔ ہمیں کام کون دے گا؟اور نہ ہی یہاں کوئی ہم پر اعتبار کرتا ہے۔ تم نے دیکھا ہے ناں جب ہم گھر گھر جا کر بھیک مانگتے ہیں تو لوگ ہمیں دروازے پر روک لیتے ہیں ۔ کچھ لوگ تو دروازہ بند کرلیتے ہیں پھر تھوڑی دیر بعد آکر ہمیں آٹا یا پیسے دے دیتے ہیں تو ایسے میں کیا تمہیں لگتا ہے کوئی ہمیں اپنے گھر کام پہ رکھے گا ؟ نہیں ناں کیوں کہ حقیقتاََ لوگ ہم سے ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ لوگ خدانخواستہ ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچادیں یا ہم چوری نہ کرلیں۔‘‘اب کی بار بولتے بولتے رشیدہ کی بھی آنکھیں بھرآئی تھی۔
’’ماں! لوگ اتنے برے کیوں ہوتے ہیں؟‘‘ مروہ نے ماں کی آنکھوں میں دیکھ کر سوال کیا۔
’’نہ بچے نہ … لوگ برے نہیں ہوتے ۔ لوگ تو بالکل صحیح کرتے ہیں کسی کا مقصد ہمیں اذیت پہنچانا نہیں ہوتا ۔ لوگ تو بس اپنی حفاظت کیلئے احتیاط کرتے ہیں کیوں کہ کچھ لوگ ہمارا روپ دھار کر لوگوں کے گھروں کے اندر اپنے برے مقاصد مثلا َچوری اور ڈاکے وغیرہ کے لئے بھی گھستے ہیں۔‘‘
٭…٭
’’مروہ بیٹا اٹھو دیکھو ابھی ہینڈ پمپ کے ساتھ کوئی نہیں ہے ۔ تھوڑی دیرمیں لائن لگ جائے گی ۔ جلدی سے منہ ہاتھ دھولو ، پھر روٹی بنائی ہے تمہارے لئے تم کھا لینا اور میں اپنے استعمال کے لئے پانی بھرلوں گی۔اس کے بعد ہم مانگنے نکل جائیں گے ۔ جتنا جلدی جائیں گے اتنا اچھا ہے ۔ ‘‘ابھی صبح کی روشنی پوری طرح چھائی بھی نہیں تھی کہ رشیدہ مروہ کو بیدار کررہی تھی اور مروہ بھی فورا اٹھ بیٹھی۔
اب مروہ پمپ کے ہینڈل کو دونوں ہاتھوں کی مدد سے پکڑے چلارہی تھی ۔ وہ پہلے پمپ چلاتی پھر ہینڈل کو چھوڑ کر ہاتھ پانی کے آگے کرلیتی پھر ہینڈل چلاتی پھر دونوں ہاتھوں کا کٹورہ بنا کر اس میں پانی بھرنے لگتی ۔ یوں اس نے منہ ہاتھ دھولئے ۔ اب اپنے خیمہ کی طرف بڑھ رہی تھی اس کے پیچھے کھڑی ان کی پڑوسن اب پمپ استعمال کررہی تھی ۔ یہ سارے خیموں کا مشترکہ ایک ہی پمپ تھا ۔ جسے سب باری باری استعمال کرتے ۔ اس کے علاوہ پانی کا کوئی انتظام نہ تھا یہاں تک کہ خواتین یا مرد حضرات کوئی بھی اگر نہانا چاہے تو بھی پمپ کے قریب بیٹھ کر کپڑوں سمیت نہاتے اور پھر اپنے خیموں میں جاکر کپڑے تبدیل کرلیتے تھے۔
’’ماں! مجھے بھوک نہیں ۔ مجھ سے پوچھے بنا کیوں بنائی آپ نے میری روٹی ۔ ‘‘اب وہ ماں سے مخاطب تھی جو بیٹھی اس کے کپڑوں میں پیوند لگارہی تھی ۔ ان بچاروں کے تو کپڑے بھی اپنے نہیں ہوتے مانگ تانگ کر ، لوگوں کی اترن ہی پہنتے تھے ۔ تبھی پہننے سے پہلے کہیں جگہوں پر پیوند لگانے کی ضرورت ہوتی۔
’’ایسے کیسے بھوک نہیں ہے ۔ کھاؤ شاباش رات بھی تم بنا کھائے سوگئی تھی ۔ ‘‘ رشیدہ سوئی پکڑے اس کی جانب دیکھ کے بولی۔
’’لیکن آپ بھی کھائیں گی میرے ساتھ۔‘‘ اس نے یکدم ماں کے سامنے اپنی شرط رکھ دی۔
’’نہیں میں کھا چکی ہوں۔‘‘ وہ دوبارہ کپڑوں کی جانب متوجہ ہوئی۔
’’نہیں رات آپ کہہ رہی تھی کہ صرف ایک روٹی کا آٹا بچا ہے ۔ کل ہم آٹا لائیں گے تو وہ ایک روٹی تو آپ نے میرے لئے بنائی ۔ پھر آپ نے کیسے کھالیا۔‘‘ وہ بہت سوچ سمجھ کر بول رہی تھی اور رشیدہ بغور اس کا معصوم چہرہ تک رہی تھی۔
’’اچھا چلو آؤ۔‘‘ رشیدہ کپڑا اور سوئی دھاگہ ایک طرف رکھتے ہوئے آبیٹھی۔
’’کرایہ لاؤ بی بی ، آج دسویں تاریخ ہے۔‘‘ رشیدہ نے اپنے ہاتھ سے لقمہ بنا کر اس کے منہ میں رکھا ہی تھا کہ باہر سے لالا کی آواز آئی۔ پشاور رنگ روڈ سے نیچے موجود یہ زمین اور اس پہ لگے خیمے اسی پٹھان لالا کے تھے جو ہر مہینے کرایہ لینے آتا اور سارے خیموں کے رہائشیوں سے کرایہ وصول کرلیتا تھا ۔ یہاں رہنے والے لوگوں میں زیادہ تر بھکاری ہی تھے ۔ یہ خانہ بدوش لوگ سندھ، پنجاب اور دیگر علاقوں سے آکر یہاں رہنے لگتے ہیں ۔ اکثر ان کا ذریعہ معاش بھیک ہی ہوتا ہے۔ شہر کے لوگ انہیں اپنی زبان میں چنگڑیان کہا کرتے ہیں۔کئی سال پہلے مروہ کا باپ بھی اس کی ماں کو لے کر یہاں آیا تھا اوربھیک مانگنا شروع کی تھی۔ وہ لوگ پہلے بھی یہی کرتے تھے۔ مروہ چند سال کی تھی جب اس کاباپ ایک روڈ ایکسڈنٹ میں فوت ہوگیا تھا۔ اس کے بعد رشیدہ نے مروہ کو پالا تھا۔
’’ جاؤ تم لالا کو پیسے دے آؤ۔‘‘ رشیدہ نے وہی صندوق کھول کر پیسے نکالے اور مروہ کو تھما دیے جو بھاگ کر لالا کو پیسے دینے باہرنکل گئی۔
’’سنگہ یی لورے(کیسی ہو بیٹی؟) ‘‘ لالا نے پیسے لے کر اس کے سر پہ ہاتھ پیرتے ہوئے پوچھا۔
’’ ٹھیک ہوں۔‘‘ اس نے مسکراکر جواب دیا ۔ پختونوں کے شہر میں رہتے ہوئے اب اسے بھی پشتو کی تھوڑی بہت سمجھ آنے لگی تھی۔
’’ما بچئی سہ مسئلہ خو نشتہ کنہ(میری بچی کوئی مسئلہ تو نہیں ہے نا)‘‘ لالا نے مسکراتے چہرے سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے دوسرا سوال کیا۔
’’نہ جی۔‘‘ اس نے نفی میں سر ہلایا تو لالہ مڑ کر دوسرے خیمے کی طرف بڑھنے لگے ۔ جہاں شاہد چاچا اور ثمینہ چاچی اپنے تین بچوں سمیت رہتے تھے ۔ شاہد چاچا مزدوری کرتے تھے مگر سارے پیسے گویا چرس کے دھویں میں اڑادیتے تھے اور ثمینہ چاچی بھیک مانگ کر اپنے بچوں کو پالتی تھی ۔ ان کے مقابل خیمے میں جمیل چاچا اور شمیم چاچی دونوں بھکاری تھے اور بھیک مانگ کر اپنے چھ بچوں کوپالتے تھے ۔ پہلے سارے بچے گھر پہ ہوتے تھے ۔ اب ایک دوبچوں کو بھی بھیک مانگنے پہ لگا دیا تھا ۔ جیسے یہ کوئی کاروبار ہو اور آمدنی بڑھانے کیلئے مزدور بڑھادئے گئے ہو ۔ یہاں قریب پچیس تیس خیمے لگے تھے اور ہر خیمے میں بسنے والوں کی اپنی الگ کہانی تھی ۔ اس میں بہت کم لوگ ہی ایسے تھے جو مزدوری کرتے تھے ورنہ تو سارے بھکاری تھے ۔ مروہ کو ہمیشہ یہ سوچ پریشان رکھتی تھی اگر یہ چند لوگ مزوری کرسکتے ہیں تو ان سمیت باقیوں نے کیوں بھیک کو اپنا پیشہ بنایا ہوا ہے ۔ ہاتھ پائوں تو سب کے سلامت ہیں ۔ اب بھی ان خیموں کو دیکھ کر یہی خیال اس کے ذہن میں آیا سو ٹھنڈی آہ بھر کر دوبارہ اندر چلی گئی۔
٭…٭
’’آج ایسا کرتے ہیں ۔ فیملی پارک کے باہر بیٹھ جائیں گے تو اچھی کمائی ہوجائے گی ۔ وہاں رش بہت ہوتا ہے ۔‘‘ رشیدہ نے اسے بتا کر فورا ہی رکشہ روک دیا اور پھر تھوڑی ہی دیر میں وہ دونوں پارک کے باہر بیٹھے راہگیروں کو دیکھ رہے تھے ۔ یہاں لوگ کا آنا جانا اتنا زیادہ تھا کہ آج واقعی ان کی کٹوری عام حالات کی نسبت جلدی بھر رہی تھی۔
’’ماں ! دیکھو وہ چاچا ماسک بیچ رہاہے اور وہ والا لڑکا بھٹے بیچ رہا ہے ۔ کیا ہم بھی ان کی طرح کچھ بیچ نہیں سکتے؟‘‘ وہ اپنے لہجے میں پسندیدہ حلال کمائی کی حسرت لئے ماں سے پوچھ رہی تھی۔
’’نہیں۔‘‘ رشیدہ نے کھرا جواب دیا۔
’’کیوں؟‘‘ وہ پھر سے پوچھ بیٹھی۔
’’کیونکہ کچھ بیچنے کیلئے بھی پہلے اسے خریدنا پڑتا ہے اور ہمارے پاس اس کے لئے بھی پیسے نہیں ہیں۔‘‘
’’تو ماں آج تو ویسے بھی ہمیں باقی دنوں سے زیادہ بھیک مل رہی ہے ۔ اس پیسوں سے ہم گڑ اور مونگ پھلی خرید کر پتیسے بنا لیں گے ۔ جس طرح آپ نے میرے لئے بنایا تھا اور پھر میں اسے لوگوں کو بیچوں گی اور پھر جو پیسے ملیں گے اس سے ہم دوبارہ پتیسے بنا لی گے۔ بس آپ بنائیں گی اور میں بیچوں گی۔‘‘ اس کی آنکھوں میں ایک چمک ابھری تھی۔
’’ ہمارے پاس کھانے کو کچھ ہے نہیں ۔ ان پیسوں سے ہم آٹا اور سبزی وغیرہ خریدیں گے۔‘‘ رشیدہ اکتا کر بولی۔
’’لیکن ماں ہم محنت کرکے کمانے کی ایک کوشش تو کرسکتے ہیں ناں۔‘‘اب کی بار اس نے دھیرے سے کہا۔
’’چپ رہو تم نہیں سمجھوگی۔‘‘ رشیدہ نے اسے کھاٹ دار نظروں سے دیکھا تو وہ خاموش ہوگئی۔
٭…٭
وہ دونوں آج پبی آئے تھے ۔ مروہ ہمیشہ کی طرح یہی سوچ رہی تھی کہ بھیک کی غرض سے پبی، تارو، اضاخیل جانے کے لئے ہمارے پاس کرایہ ہوتا ہے لیکن کام شروع کرنے کیلئے پیسے نہیں۔
یہاں یہ لوگ گھر گھر جاکے بھیک مانگ رہے تھے ۔ ہر کھلے دروازے میں کھڑے ہوکر یہ لوگ مانگتے ۔ کوئی آٹا تو کوئی پیسے دے دیتا تھا ۔ ایک دروازے سے اندر گئے تو گھرکا ماحول دیکھ کرمعلوم ہوا یہاں ابھی ابھی کسی فنکشن کا اختتام ہوا ہے ۔ ہینڈ پمپ کے قریب پڑے ڈھیر سارے برتن اور اوپر سے پورے گھر میں بچوں کے چپس کے خالی ریپرز بکھرے تھے ۔ لوگ بھی کچھ زیادہ لگ رہے تھے جن میں سے کچھ آرام سے بیٹھے چائے پی رہے تھے جبکہ کچھ لوگ ادھر سے ادھر کافی جلدی جلدی میں اپنے کام نمٹا رہے تھے ۔ یہ کوئی کنال بھر کا خوبصورت نقشے پہ بنا گھر تھا ۔ جس کے پکے فرش بے حد گدلے ہوچکے تھے ۔ ایک طرف کرسیاں اور میزیں بکھری پڑی تھی جس کے نیچے کے فرش پہ کہیں کہیں چاول اور ترکاری گری پڑی تھی۔
’’ رومیصہ ! تم نے بلایا تھا ناں کام والی آنٹی کو تو پھر کیا کہا تھا انہوں نے کب تک آجائیں گی۔‘‘ان کو بھیک دینے قریب آنے والی خاتون نے شاید اپنی بیٹی کو پکارا تھا۔
’’وہ کہہ رہی تھی ان کی طبیعت ٹھیک نہیں اس لئے ہم کسی اور کا بندوبست کرلیں۔‘‘ پیچھے کہیں کمرے سے آواز آئی۔
’’اور یہ بات تم مجھے اب بتا رہی ہو؟ ہم اب کیا کریں گے ۔ یہ ساری صفائی کون کرے گا ۔ تم وقت پہ بتا دیتی تو میں کسی اور کا بندوبست کرلیتی ۔‘‘ خوبصورت خاتون کے چہرے پہ پریشانی کی لہریں چھا گئی۔
’’چاچی!اگر آپ کہیں تو ہم یہ سارے برتن دھولیں گے اور پورے گھر کی صفائی بھی بہت اچھے سے کرلیں گے لیکن اس کے لئے آپ ہمیں کتنے پیسے دیں گی؟‘‘ مروہ جب سے آئی تھی برتنوں کو ہی دیکھی جارہی تھی ۔ جس میں اسے اپنی کام کرکے کمانے کی خواہش پوری ہوتی نظر آرہی تھی سو پوچھ ہی لیا ۔ رشیدہ نے اسے چٹکی کاٹی تو باقی کچھ بھی بولنے کا ارادہ ترک کیا۔
’’میں دوسری کام والی کو بھی دو ہزار دینے والی تھی تمہیں دیے دوں گی اگر تم یہ سارا کام کردو۔‘‘ ہاتھ میں پکڑا بیس کا نوٹ آگے بڑھاتی ہوئی خاتون پہلے تو ایک لمحے کیلئے رک کر مروہ کو دیکھتی رہی پھر دھیرے سے رشیدہ کی طرف دیکھ کر بولی اور کندھے اچکائے۔
’’جی باجی میں کردوں گی یہ سارا کام۔‘‘ رشیدہ جسے مروہ کی اس حرکت پر شدید غصہ آرہا تھا مگر اب دو ہزار کا سن کر فوراََ سے پہلے ہامی بھرلی کیونکہ اس نے تو کبھی زندگی میں دو ہزار اکھٹے نہیں دیکھے تھے۔
کچھ دیر بعد وہ اور مروہ ساتھ بیٹھے برتن دھورہے تھے ۔ پھر اس نے بہت دھیان سے پورے گھر کی صفائی کی ۔ ادھر ادھر بکھری چیزوں کو ترتیب اور نفاست سے رکھا اور آخر میں فرش دھو کر کام ختم کیا تو اس خاتون کے پاس آئی۔
’’باجی سارا کام ختم کردیا ہے آپ دیکھ لیں اگر کچھ رہ گیا ہو ہم سے۔‘‘ رشیدہ اب اس خاتون سے مخاطب تھی۔
’’نہیں میں دیکھ چکی ہوں ۔ تم نے کام بہت اچھے سے مکمل کردیا ہے یہ تمہاری اجرت۔‘‘ خاتون نے پرس اٹھا کر اس میں سے ہزار کے دو کرارے نوٹ نکالے اور رشیدہ کی طرف بڑھائے جو اس نے تھام لئے۔
’’شکریہ باجی۔‘‘
’’رکو آج منگنی تھی میری بیٹی کی ۔ میں چاول وغیرہ دیتی ہوں اس گڑیا کے لئے ۔‘‘ خاتون مروہ کو دیکھ کر مسکرائی اور پھر اس کے ماتھے پہ پیار کرتے ہوئے اتنا کہہ کر کچن کی جانب بڑھ گئی اور تھوڑی دیر بعد ہاتھ میں شاپر پکڑے آئی ۔ جسے لے کر وہ دونوں وہاں سے وداع ہوگئی۔
٭…٭
’’ماں! آپ نے دیکھا ناں ۔ جب ہم بھیک مانگنے گئے تو وہ عورت ہمیں بیس روپے دینے آئی ۔ تب اس کے چہرے سے ناگواری صاف ظاہر تھی ۔ لیکن جب میں نے اس سے بھیک کے بجائے کام مانگا تو اس کے چہرے کے تاثرات بالکل ہی بدل گئے ۔ وہ ہمیں حقیر سمجھنے کے بجائے ہمیں عزت دینے لگی پھر جب تک آپ ان کا کام کررہی تھی ۔ وہ لوگ ہم سے کتنے اچھے سے بات کررہے تھے،کتنی نرمی سے پیش آرہے تھے ۔ یہی فرق ہوتا ہے بھکارن اور مزدور میں ۔‘‘ مروہ انگیٹھی پہ چاول گرم کرتی رشیدہ کے قریب بیٹھ کر بولی۔
’’ہاں آج تک میں گھبراتی تھی کسی کا کام کرنے سے ۔ میں سمجھتی تھی کوئی ہمیں کام نہیں دے گا لیکن آج تمہاری وجہ سے میں نے بھی محسوس کیا کہ لوگ ٹھیک ہی کہتے ہیں ۔ کام کرکے جو پیسے کمائے جاتے ہیں اس کی اپنی الگ لذت ہوتی ہے ۔ ہماری کمائی میں تو نہ برکت ہوتی ہے نہ ہی سکون ملتا ہے کیونکہ وہ ہماری نہیں کسی اور کے محنت کی کمائی ہوتی ہے ۔‘‘ رشیدہ کے چہرے پر بھی آج بے چینی کی جگہ گہری اور پرسکون مسکراہٹ تھی۔
’’ ماں آج سے ہم گھر گھر جاکرمانگنے کی بجائے انہی گھروں میں کام ڈھونڈیں گے۔‘‘ بولتے ہوئے مروہ کی آنکھیں چمک رہی تھی۔
’’ہاں اور اگر کوئی ہمیں کام نہ بھی دیں تو کوئی مسئلہ نہیں ۔ میں کوئی ہنر سیکھ لوں گی اور پھر تمہیں بھی سکھاؤں گی۔ لیکن میں نے ارادہ کیا اب ہم مانگیں گے نہیں بلکہ محنت کر کے کمائیں گے۔ بس بہت سن لی لوگوں کی گالیاں اب اور نہیں… جب ہم اپنا کمائیں گے تو ہمیں دیکھ کر یہاں کوئی پٹھان یہ نہیں کہے گا کہ یہ چنگڑیان ہیں بلکہ میں رشیدہ اور میری بیٹی مروہ اپنے نام سے ہی پکارے جائیں گے۔ ‘‘ رشیدہ بولتے ہوئے مروہ کو ہی دیکھ رہی تھی۔
’’ماں!‘‘
’’جی بچے۔‘‘
’’چاول جل جائیں گے۔‘‘ وہ معصومیت سے بولی تو دونوں کا قہقہہ بلند ہوا، ایسا پرسکون قہقہہ جو اس سے قبل اس فضا میں سنا نہیں گیا تھا۔
٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے