شکر الحمدللہ: ام اقصٰی

سرداروں کے گھر کےآگے سے گزرتے معظمہ کے قدم آہستہ ہو جاتے اور نگاہیں دیواروں سے لپٹ جاتی ، کبھی گیٹ کھلا ملتا تو چند منٹ اندر جھانکتی رہتی، سامنے کھڑی گاڑی ہی نظر آتی ۔ دھیان لگا کر آوازیں سننا چاہتی تھی مگر کبھی آواز آ کے نہ دیتی ۔ وہ جاننا چاہتی تھی امیرلوگ کیسی باتیں کرتے اور کن موضوعات پر ہوتی ہیں۔
کبھی کبھار سردار شبیر کے تین بچے اپنے ٹرالی بیگ گھسیٹتے ہوئے نکلتے اور گیٹ کے سامنے کھڑی سکون وین میں بیٹھتے۔ ڈرائیور لپک کر آتا اور انہیں بیگ رکھنے اور وین میں بیٹھنے میں مدد دیتا ۔ معظمہ وہی کھڑے ہو کر ذوق و شوق سے یہ پورا منظر دیکھتی ، بچے وین میں بیٹھتے ہی گیٹ پر کھڑے سنہری بالوں والی مما کو دیکھ کر ہاتھ ہلاتے ہوئے آگے بڑھ جاتے۔ معظمہ وہی کھڑے دور جاتی وین کو دیکھے جاتی اور سوچتی کس قدر پرلطف بات ہے نا وین میں سکول جانا ۔ وہ اپنی چار پانچ کتابیں ایک کولہے سے دوسرے پہ منتقل کرتی ،کبھی سر پہ ٹکاتی اسکول جایا کرتی ۔ اسے لگتا غریبوں کی زندگی میں یہی تو فرق ہوتا ہے۔ امیر زندگی کو ٹرالی بیگ کی طرح کہیں بھی گھسیٹتے پھرتے ہیں لوگ لپک کر مدد کرنے کو ہمہ وقت تیار اور غریب کبھی سر پر تو کبھی ایک کولہے تو کبھی دوسرے پر زندگی ٹکاتے ہی ہانپ جاتے ہیں۔
وہ اکثر اس بات کا دادی بی سےاظہار بھی کرتی تو وہ بھی بگڑ جاتیں۔
’’رزق کی تنگی پہ پناہ نہیں مانگنی چاہیے ، اس کی کشادگی سے پناہ مانگو ۔‘‘
’’یہ کیا بات ہوئی دادی بی۔‘‘ وہ برا مان جاتی ۔
’’ہم چھوٹے لوگوں کے مسئلے بھی چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں ، سر پہ اٹھا لینے والے یا کولہے پہ ٹک جاتے ہیں ، زیادہ سے زیادہ یہی کے پاؤں میں پڑے رہتے ہیں مگر یہ جو امیر لوگ ہوتے ہیں نا ان کے مسئلے بہت بڑے ہوتے ہیں اکثر تو وہ پکڑ میں آتے ہیں نا سمجھ میں ۔‘‘ دادی بھی نرم لہجے میں سمجھاتیں۔
’’ ابا دوسری شادی نہ کرتے تو ہمارے حالات شاید اتنے بھی برے نہ ہوتے ۔‘‘ وہ آزردگی سے سوچتی اور دادی بی کے سامنے اظہار کرتی۔
’’ دوسری شادی نہ کرتے تو روٹی ٹکڑ کون کرتا ، میں بوڑھی اور بیمار تم کمسن۔ دوسری شادی سے اور کتنے فردآگئے دیکھو ۔‘‘ صحن میں کھیلتے چاروں بچوں کو ایک ایک کر کے گنتی۔
’’بہن بھائی ہیں تیرے ، اپنے نصیب کا رزق لکھوا کر آئے ہیں ۔‘‘
’’بس لکھوا کے ہی آئے ہیں لیتے آتے ساتھ گٹھڑیاں ۔‘‘
’’تجھے کس چیز کی فکر ہے بتا کبھی بھوکے پیٹ سوئی ہے بھلا۔‘‘ دادی بی کو اس کی ناشکری پہ غصہ آنے لگتا۔
’’میری استانی کہہ رہی تھی تم اچھا پڑھتی ہو ، آگے بھی پڑھنا ۔‘‘ معظمہ استانی کے کہے میں اپنی خواہش بھی بیان کر جاتی ۔
’’نہ ۔۔۔‘‘ دادی بی ہاتھ اٹھا کر چٹیل لہجے میں کہتیں۔
’’ پانچویں کے پیپر دے لو۔ لکھنا پڑھنا سودے کا حساب کرنا اور پیسے گننا آجائے گا، اتنا بہت ہے ۔ ماں کا کچھ ہاتھ بٹھانا پھر شادی کر کے تیرے فرض سے سبق دوش ہو جائیں گے۔‘‘
’’میری سگی ماں زندہ ہوتی تو وہ بھی ایسے کرتی میرے ساتھ ۔‘‘ اس نے دادی کو ایموشنل بلیک میل کرنا چاہا
’’بالکل یہی کرتی ، تیرے ابا کی فروٹ کی ریڑھی ہے جتنی آمدن ہوتی ہے ناں اس نے بھی یہی کرناتھا۔‘‘
٭…٭…٭
اور پھر یہی کیا دادی بی نے ۔اس کا اٹھارواں سال لگتے ہی اس کا اسی گاؤں میں رشتہ پکا کر دیا ۔ صدام سرداروں کے ہاں کام کرتا تھا ۔ منچن آباد کا رہائشی تھا مگر چھوٹے ہوتے ہی کام کے لیے یہاں آگیا تھا ۔ خوب محنتی نوجوان تھا ، اپنا گھر بھی بنا لیا تھا ۔ دادی بی اور ابا کے لیے تو بہت بڑی بات تھی ۔ وہ سب کو خوشی خوشی بتاتے اس کا اپنا چولہا ہے ۔
’’دادی بی ! چولہے کے بغیر بھی گھر ہوتا ہے کیا۔‘‘ وہ الجھ کر پوچھتی ۔
’’پگلی اپنا گھر ہے اس کا ، جس کا اپنا گھر ہوتا ہے اس کو بولتے ہیں محاورتا کہ اپنا چولہا ہے ۔‘‘ دادی بی ہنستے ہوئے بتا رہی تھی۔آج کل ایسے ہی وہ ہر بات پر کھلی پڑی رہتی تھیں۔
صدام علی کے سنگ زندگی ابے کے گھر سے مختلف نہ تھی ۔ سردار کام تو خود لیتے مگر معاوضہ انتہائی کم دیتے ۔ ان دو لوگوں کا گزر بسر اس معاوضے سے مشکل ہوتا ۔ صدام آج کل سنجیدگی سے سرداروں کے ہاں کام چھوڑنے کا سوچ رہا تھا بلکہ تین چار دن سے گیا ہی نہیں اور نمبر بھی بند کر لیا تھا۔صدام اندر لیٹا جبکہ معظمہ پاس ہی کھرے میں بیٹھی برتن صاف کر رہی تھی ۔اسی اثنا میں دروازہ بجاتو اس نے اٹھ کے دیکھا ۔ چالیس کے پیٹے میں خوبصورت سا مرد کھڑا تھا ۔ چوڑے کندھے،انتہائی گورا چہرہ، گھنی سیاہ مونچھیں اور گھنے بال ، سفید کلف لگا کاٹن کا کرتا شلوار پہنے ہوئے تھا۔
’’صدام علی ہے ۔‘‘
’’جی لیٹے ہیں طبیعت بہتر نہیں ۔‘‘
’’اٹھاؤ بولو سردار منیر آئے ہیں ۔‘‘ معظمہ تیزی سے اندر کی جانب بھاگی۔صدام کو اٹھایا سردار نے منہ بھی نہیں دھونے دیا اور ساتھ لے گیا ۔
وہ دن بھر سردار کے حلیے سے متاثر اسے سوچے گی ۔
’’یہ کھاتا کیا ہوگا جو اتنا گورا اور خوبصورت ہے۔ فروٹ ، دودھ۔۔۔ نہیں وہ تو عام انسان کی پہنچ میں ہے اور کھاپی بھی لیتا ہے پر سب ایسے پیارے تو نہیں ہوتے۔‘‘ وہ بھول گئی کہ عام آدمی مہینوں بعد کھاتا ہے ۔
’’سونا چاندی ۔۔۔ وہ کھانے کی چیز تو نہیں ہے۔ ‘‘
’’پھر کیا؟‘‘ وہ دن بھرالجھتی رہی ۔
سہ پہر ڈھلے وہ ہمسائی شہنی باجی کے گھر آئی ۔ شہنی باجی سرداروں کے گھر کام کرتی تھی ۔ وہ بہانے بہانے سے سرداروں کے گھر کا ٹاپک چھیڑ لیتی ۔
’’سردار شبیر کی بیوی ہے نا روحا باجی اسے کام والی کی ضرورت ہے ، تم کرو گی ان کے ہاں یہ کام ۔‘‘
’’میں صدام سے پوچھ کے بتاؤں گی ۔‘‘معظمہ کو سن کر خوشی ہوئی تھی ۔ اسی بہانے سرداروں کا گھر اسے دیکھنے کا موقع ملے گا ۔
’’آج ایک سردار ہمارے گھر آیا تھا صدام کو بلانے ۔‘‘ معظمہ نے اشتیاق سے پوچھا۔
’’سردار شبیر ہوگا ۔‘‘ شہنی باجی نے اندازہ لگایا ۔
’’نہیں اس نے اپنا نام سردار منیر بتایا تھا۔ ‘‘
’’ہاں سردار حشام کے تین بیٹے ہیں ۔ شبیر ، منیر اور علی ۔۔۔ علی باہر ہوتا ہے ۔‘‘
’’سردار منیر تو کافی پیارا ہے ۔ باقی سب بھی ایسے ہیں؟‘‘
’’ تینوں ایک جیسے پر سردار منیر تھوڑا زیادہ پیاراصحت والا تھا ۔ اب تو رہتا جا رہا ہے ، نشہ بہت کرتا ہے ۔‘‘ باجی شہنی نے آگے ہو کر اس کے کان میں بتایا ۔
’’اچھا بڑے لوگوں میں یہ عام بات ہے۔‘‘
’’صدام آنے والا تھا ۔ معظمہ گھر لوٹ آئی دو آلو پڑے تھے ۔ انہیں کاٹ کر کلونجی ڈال کر مصالے میں بھون لیا ۔ کپاس کی خشک چھڑیاں بھی ختم ہوتی جا رہی تھی ۔ گیس وہ افورڈ نہ کر پاتے تھے ۔ رات صدام نے کھانا کھاتے ہوئے ہر ہر لقمے کی تعریف کی ۔
’’صدام۔‘‘ اس نے اپنی بات کو پھر سے تولا ۔
’’بولو ۔۔۔‘‘
’’میں سرداروں کے گھر نہ کام کر لیا کروں، چار پیسے ہی آ جایا کریں گے ۔‘‘
’’پگلی تجھ سے لوگوں کے گھروں میں کام کرواؤں گا کیا ۔ یہ سردار لوگ تو کام کروا کے تیل نکال لیتے ہیں بندے کا ۔ ‘‘
’’تو بھی تو سرداروں کا کام چھوڑ رہا ہے پھر کیا کریں گے ۔‘‘
’’سرداروں کے ہاں آج حساب کر کے آیا ہوں ۔ کچھ بھی کر لوں گا ۔‘‘ پیٹ بھر چکا تھا صدام کو بھرپور نیند اپنی اغوش میں لینے کو تھی۔ برتن وہیں سرکاکے وہ لیٹ گیا ۔
٭…٭…٭
دو دن ہو گئے تھے صدام کو کام نہیں ملا تھا ۔ وہ لوگ فاقے سے تھے چند بھنے دانے پھانک لیتے اور پانی پی لیتے تھے۔
معظمہ شام کو ابا کے گھر چلی آئی ۔
’’دادی بی آپ نے یہ تو دیکھ لیا اپنا چولہا ہے کہ نہیں پر یہ نہیں دیکھا کہ چولہے پر کچھ پکتا بھی ہے یا نہیں ۔‘‘
’’شکر الحمدللہ پڑھا کر ، تنگی ترشی کے دن نکل ہی جاتے ہیں ، صدام تیرے ساتھ ٹھیک ہے سر پہ اپنی چھت ہے اور تجھے کیا چاہیے بھلا ۔‘‘ دادی بی نرمی سے سمجھاتی ۔
’’دادی ایک بھی پیٹ ہے جو کھانا مانگتا ہے اور انواع و اقسام کا مانگتا ہے ۔‘‘وہ بولی تو لہجے میں نرمی گھلی تھی۔
’’ شکر کرو دوائیاں نہیں مانگتا ، خوراک مانگتا ہے ۔ یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں صدام کام کرے گا تو یہ مسئلہ بھی ختم ہو جائے گا ۔ صحت سب سے بڑی دولت ہے اور وہ تیرے پاس ہے۔‘‘