افسانے

حاصل : حفیظہ لعل دین

سورج غروب کے مقام پہ جا ٹھہرا تھا ۔ آسمان پہ چھوٹی چھوٹی بادلوں کی ٹکڑیاں سرخی کو تن پہ سجائے مغرب کی طرف ہوا کے سنگ رواں دواں تھیں ۔ بہار کے دامن میں خوشبوئیں ہر سو آنکھوں کو ٹھنڈک دے رہی تھیں ۔ اسی آسمان تلے سنبل کے درخت قطار میں کھڑے تھے ۔ ان درختوں میں سے ایک درخت کے نیچے کھڑا ، میں افضال سے کا ل پر بات کررہا تھاکہ کہاں پہنچے ہو ۔ آج میرے خالہ زاد کا ولیمہ تھا ۔ ابھی میں بات کر ہی رہا تھا کہ مجھے ابو کی آواز آئی ۔ میں نے خدا حافظ کہہ کر فون کاٹا ۔ اور ابو کی طرف ہال میں چلا گیا۔
’’جی ابو۔‘‘ میں نے پہلے ابو کی طرف دیکھا پھر ان کے ساتھ کھڑے آدمی کی طرف۔
’’ ان سے ملو ۔ یہ تمہارے ماموں ہیں ۔ بھولا ۔ ‘‘ میں نے بغور ان کی طرف دیکھا ۔ وہ مجھے مرد کہیں سے بھی نہیں لگ رہے تھے ۔ انہوں نے واشن وئیر کے سوٹ کے ساتھ پیروں میں کشمیری چپل اڑسی ہوئی تھی ۔ ساتھ ہی ساتھ کندھے پر صافہ (ایک طرح کا لمبا رومال ) بھی ان کو مرد ہی ظاہر کر رہا تھا ۔ مگر ان کے نقوش، آنکھیں ، ہونٹ ، پورا چہرہ… میں الجھ گیا ۔
میں نے ان سے سلام لیا ۔ آگے سے بھولا ماموں بڑی گرم جوشی سے مجھے ملے ۔ اور رسمی احوال ہو ا۔ اتنی دیر میں ابو کو کسی نے بلا لیا ۔ میں وہیں بھولا ماموں کے ساتھ کھڑا ہو گیا ۔ تب وہ بولے۔
’’ حیرانگی دماغ کو الجھا رہی ہوگی ۔ پریشان کر رہی ہوگی ۔‘‘ میں نے سپاٹ چہرے کے ساتھ ان کو دیکھا ۔ پھر چہرے پر مسکراہٹ لا کر کہا۔
’’ نہیں ۔ میں کیوں پریشان ہوں گا ۔ میں ٹھیک ہوں ۔ ‘‘ میں نے کھوکھلی تسلی دی ۔ اسن کو بھی اور خود کو بھی۔
’’ تو پھر مجھے اس طرح کیوں دیکھا جس طرح لوگ کسی الگ شے کو دیکھتے ہیں ۔ ‘‘ انھوں نے صافے کے کونے سے منہ پر بہتا پسینہ صاف کیا۔
’’ لاہور میں کام کرتے ہوئے میں نے دنیا دیکھی ہے ماموں ۔ مگر آپ کی طرف دیکھوں تو دنیا بھول کر میں عجیب مخمصے میں پڑ جاتا ہوں۔ آپ کا چہرہ حیرانگی کی جھولی میں پریشانی اکھٹی کر رہا ہے ۔ وہ کہہ رہا ہے کہ آپ وہ نہیں ہیں جو لوگ بتا رہے ہیں ۔ آپ الگ ہیں ۔ ہوسکتا ہے میں غلطی پر ہوں ۔ بندہ بشر ہوں مگر میری سوچ مجھے غلط کہہ رہی ہے۔‘‘ میں نے بھی صاف گوئی سے کہہ دیا۔
’’تمہارے ابو سے سنا ہے کہ تم کہانیاں لکھتے ہو ۔ اور لکھاری ہی اس طرح بول سکتا ہے جس طرح تم بولے ہو۔‘‘ ہم چلتے ہوئے باہر آ گئے۔ وہیں جہاں سنبل کے درخت کھڑے تھے۔
’’جی ماموں۔ کہانیاں لکھتا ہوں میں۔‘‘
’’ تو آج میں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں ۔ اس کہانی کے لباس میں لگے پیوند دکھاتا ہوں ۔ پیوند کے دھاگے میں بسی محبت اور اس محبت کی وہ باس جو دھاگے کے ریشوں سے آتی ہے ‘ تمہارے سامنے رکھتا ہوں ۔ پھر پوچھتا ہوں کہ یہ ٹھیک ہے یا غلط۔‘‘ وہ آرام سے درخت کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھ گئے ۔ اور میں وہیں کھڑا ان کو دیکھتا رہا۔
٭…٭
نور محمد کے گھر اس کالی سیاہ رات میں آٹھویں بیٹی ہوئی تھی ۔ اور سال ‘ سال کے فرق سے ساری بیٹیاں یاسمین کے سامنے کھڑی تھیں ۔ یاسمین خالی آنکھوں کے ساتھ اپنی گود میں لیٹی بچی کو دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ کاش بیٹا ہو جاتا ۔ ستاروں کی قطار میں کہیں چاند نکل آتا ۔ تھوڑی روشنی ہو جاتی مگر یہاں تو سیاہ رات ہی مقدر ہے ۔ اور وہ مقدر ساری زندگی ساتھ نہیں چھوڑے گا ۔
تبھی نور محمد گھر میں داخل ہوئے ۔ پھلوں کے شاپر، دو کلو والا مٹھائی کا ڈبہ اور چہرے پہ ڈھیر ساری مسکراہٹ۔
’’مبارک ہو یاسمین۔ اللہ پاک نے پھر بیٹی دی ہے ۔ مطلب جنت میں جانے کے لیے ایک اور دلیل۔‘‘ یاسمین نے خالی نظروں سے انھیں دیکھا ۔ ان کا دیکھنا نور محمد کو کھا گیا۔
’’بہتر ہوگا یاسمین، دیکھنا تم۔اللہ پاک تمھاری اس بات کا بھی مان رکھے گا۔ ‘‘ انھوں نے تسلی دی۔
’’ اور کتنا صبر کروں میں نور محمد، بلکہ صبر بھی اب دامن جھاڑ کر کھڑا ہوگیا ہے ۔ اور کہہ رہا ہے اب میرا یہاں کوئی کام نہیں ۔ دیکھو وہ جا رہا ہے۔ میرے پاس وہ پچھتاوا چھوڑ رہا ہے کہ صبر پر کیا ملا! خالی ہاتھ رہ گئی میں پھر…‘‘
’’نہ یاسمین نہ ، رب سوہنا ناراض ہوتا ہے ایسی بات کہنے پر ۔ اس کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں۔‘‘ انھوں نے پھر تسلی دی۔
’’ آٹھ مرتبہ میری جھولی ترسی ہے نور محمد ۔ مگر رب کو ترس نہیں آیا۔‘‘ وہ پھپھک پھپھک کر رونے لگی۔
نور محمد نے بیٹی کو اٹھایا ۔ پیار کر کے بچوں کو کہا کہ مٹھائی کھاؤ ، بہن گھر آئی ہے ۔ بچے مٹھائی کی طرف گئے مگر وہ لڑکی کھڑی رہی جو سب سے بڑی تھی ۔ وہ خاموشی سے ماں باپ کو سنتی رہی ۔ سوچتی رہی اگلی بار ان شاء اللہ بھائی ہوگا۔
لیکن اللہ پاک کو کچھ اور منظور تھا۔
کیونکہ سال بعد نویں بیٹی ہوئی تو یاسمین دل پہ ہاتھ رکھے مر گئی ۔ بڑی بیٹی دیکھتی رہی کہ ماں ہوکا مار کر مر گئی کہ اس بار بھی بیٹی…
٭…٭
نور محمد پھلوں کی ریڑھی لگاتے تھے ۔ یاسمین کے مرنے کے بعد ۔ انھوں نے اپنی بڑی بیٹی جو کہ نو سال کی تھی کو اپنے ساتھ لے کر جانا شروع کر دیا ۔ گھر میں اس کی پھوپھو آ گئیں ۔ بچوں کو وہی دیکھتی تھیں ۔ انھی پھوپھو کے شوہر دو سال پہلے اپنا دو سالہ بیٹا چھوڑے مر گئے تھے ۔ وہ اپنے دو سالہ بیٹے کے ساتھ اپنے سسرال ہی رہ رہی تھیں۔ نور محمد کے اصرار پر وہ ان کے گھر آگئیں۔
پہلی بیٹی ماریہ تھی۔
نور محمد نے ماریہ کو ریڑھی پر لے کر جانا اور پھر سارا دن گاہکوں کو ڈیل کرنا سیکھانا شروع کیا۔
لڑکیاں جلدی بڑی ہو جاتی ہیں اور ماریہ بھی اٹھارہ سال کی ہو کر جوان ہو گئی تھی۔
بس فرق یہ تھا ۔ نور محمد نے فوجی کٹنگ کروائی ، ساتھ مردانا سوٹ بھی پہنایا … جو کوئی بھی ماریہ کو دیکھتا یہی کہتا کہ یہ لڑکا ہے۔
ماریہ نے ریڑھی پہ سارا کام سیکھا اور ایک کے ساتھ دوسری ریڑھی بھی لگا لی ۔ اب وہ اور نور محمد ایک ساتھ دونوں پہ کام کرتے تھے۔
عمر نے پرواز کر کے تئیس سال تک اڑان بھری ۔ ریڑھیوں کی تعداد چھ ہو گئی مگر ساتھ ہی نور محمد کو کینسر ڈائیگنوز ہو گیا ۔ اور وہ چند دن خدمت کروا کر ایک رات خاموشی سے چلے گئے۔
ان کے جانے کے بعد ماریہ نے کاروبار کو سنبھالا ۔ اپنی سبھی بہنوں کو بیاہ دیا ۔ ایک بہن کی شادی اپنی اسی پھوپھو کے بیٹے کے ساتھ کی جو انھی کے گھر رہتا تھا۔ مرد کا بھی سہارا ہونا چاہیے ۔
وقت گزرتا گیا۔
زندگی گزرتی گئی۔
٭…٭
’’مجھے پتہ لگ گیا تھا آپ ہی ماریہ ہوں گے ۔ پھر سب کے لئے بھولا ماموں بن گئے ۔ کیونکہ ان آٹھ بہنوں کے بھائی جو بنے تھے۔ اور ایسا تو ہوتا ہی ہے ماموں ۔ گھر میں مرد نہ ہو تو عورت کو کمانا پڑتا ہے… آپ نے قربانی دے دی اور اسی قربانی کو دیکھ کر زندگی حسرت سے دیکھتی ہوگی آپ کو مگر اس کہانی میں کہانی کہاں ہے۔‘‘
میں نے سوال کیا اور سنبل کا سرخ پھول شاخ سے علیحدہ ہوا ۔ اگلے ہی لمحے وہ میرے قدموں میں آ گرا۔
’’ میں جب پچیس کا ہوا تھا ، تب ایک شادی میں جانا ہوا ۔ میں وہاں گیا ۔ تب میں نے کسی کو دیکھا تھا ۔ میرے دل میں ایک ترنگ اٹھی تھی ۔ محبت کی ترنگ، چاہ کی ترنگ ، خود کو چاہے جانے کی ترنگ اور عمر بھر سکون کی ترنگ۔‘‘
’’چند دن بعدان کے ہاں سے ہمارے گھر رشتہ آیا تھا مگر…وہ کہتے ہوئے رک گئے۔
’’مگر؟‘‘ میں نے استفہامیہ انداز میں دیکھا۔
’’میں رات کو چارپائی پہ لیٹی پورے چاند کو دیکھ رہی تھی ۔ چاند مغربی دیوار کے دہانے پہ کھڑا مجھ پہ اپنی روشنی بکھیر رہا تھا ۔ میری مسکراہٹ کو پھوپھو نے دیکھا۔ تب وہ بولیں۔
’’ اپنے خوابوں کو مار دو ماریہ ۔ ان خوابوں کی تعبیر تمہارے باپ کے سینچے ہوئے گھر کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دے گی اور ابھی تک ایک بھی نور محمد کی بیٹی بیاہی نہیں گئی ۔ ‘‘اور میں نے دل کا گلا گھونٹ دیا۔ ‘‘
’’تمہیں پتہ ہے ۔ وہ آدمی کون تھا۔‘‘ انہوں نے کہا تو میں نے رکے سانس کے ساتھ دیکھا۔
’’ کون تھا وہ…‘‘
’’وہی آدمی۔ جو سامنے کھڑا کسی بات پہ کسی کے ساتھ بحث کر رہا ہے۔‘‘
میں نے لرزتی پلکوں کے ساتھ سامنے دیکھا تو میرا باپ کھڑا تھا۔
’’اور وہ رشتہ تمہاری امی کے لیے آیا تھا۔‘‘
میں نے ماموں کی طرف دوبارہ دیکھا تو وہ مسکراتے ہوئے بولے۔
’’ ایسے زندگی گزاری ہے میں نے ۔لیکن میں خوش ہوں ۔ میری بہنیں اپنے گھروں میں خوش ہیں ۔ بچے ماموں کہتے نہیں تھکتے اور میرے چہرے پہ مسکراہٹ لانے کے لئے سو سو جتن کرتے ہیں ۔ ایک محبت کو ہار کر اتنا کچھ مل جانا ، قسمت ہے ۔ تو دیکھ لومیں خوش قسمت ہوں ۔ میں خوش قسمت ہوں۔ ‘‘
یہ کہتے ہوئے بھولا ماموں پنڈال کی طرف بڑھ گئے ۔ میں انھیں جاتے ہوئے دیکھتا رہا ۔ پھر گہرا سانس بھر کر خالی آسمان کو دیکھا ۔ وہاں سیاہی نمودار ہو گئی تھی۔
میں نے پھر سامنے دیکھا تو افضال سامنے کھڑا تھا ۔ میں جلدی سے افضال کی جانب بڑھا۔
قلم کار کو ایک کہانی ملی تھی ۔ اور اس نے افضال سے ڈسکس کرنی تھی۔ وہی تو تھا ،جو میری ہر کہانی کی نوک پلک سنوارا کرتا تھا۔
٭٭

1 2 3اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے