تم، میں اور چائے: شبانہ مریم مسلم

Tum Main Aur Chaye : Shabana Maryam
اس وقت وہ دلِ مضطر کے جذبات کا مظاہرہ کرتے ہوئے چائے بنا کر سیدھا ٹیرس پر آگیا ۔جہاں ہجر و فراق کی محفل سجائے محبوب کی جدائی کے نغمے گا کر اپنے آپ سے ہی اس کی غیر موجودگی کا اظہار کرتا لیکن پچھلے دو دنوں میں ہی اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تھا ۔ بھاپ اڑاتا چائے کا کپ اس نے میز پر رکھا۔
’’چائے کے ایک کپ نے مجھے آج حد سے زیادہ افسردہ کیا ۔ تم ہوتی تو ہم دو ہوتے… چائے کے کپ بھی دو ہوتے۔‘‘
مراد نے میسج لکھ کر ساتھ ہی چائے سے بھرے سفید رنگ کے اس کپ کی تصویر بھی کھینچ کر بھیجی تھی ۔جس پر لال رنگ کا دل شیپ بنا تھا ۔ یہ دو کپ وہ بڑی چاہ سے خرید لائی تھی۔
میسج فوراً دیکھا گیا مگر جواباً خاموشی اختیار کر لی گئی۔
اس نے اداسی میں ڈوبتے سورج کو دیکھا اور ساتھ ہی شام کے ڈھلتے سائے میں اپنی ٹیرس پر نظر دوڑائی جو غمگین چادر میں لپٹی ہوئی سلطنت میں اس کے اجڑے دل کا منظر پیش کر رہی تھی ۔ حالاں کہ سب کچھ ویسا ہی تھا جیسے دو دن پہلے ۔ وہی مڈیر پر پھیلی سبز بیلیں ۔ ایک طرف رکھے کچھ سبز پودے اور دوسری طرف رکھی دو کرسیاں ۔ جن کے درمیان میں ایک چھوٹی سی لکڑی کی میز رکھی گئی تھی ۔ ٹیرس کی چھت میں چھوٹی سی لال ٹینیں جو سجاوٹ کے طور پر لٹکائی گئی تھیں ۔ اس وقت ہوا کے جھونکوں سے جھول رہی تھیں ۔ ہاں مگر وہ خالی کرسی شکوہ کُناں تھی ۔ وہاں وہ ہمیشہ اس کے ساتھ بیٹھ کر چائے کی چسکیوں کا لطف لیتی اور پہروں باتیں کرتی جس کی کمی کوئی چیز کوئی انسان پوری نہیں کر سکتا تھا ۔
قدرت کے اس نظام کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ کسی انسان کی جگہ کوئی دوسرا نہیں لے سکتا ۔ چاہے وہ پہلے والے سے لاکھ درجے بہتر ہو لیکن جو ایک ادا خالق نے اپنے ایک بندے میں رکھی ہے ، وہ واقعی کسی دوسرے میں نہیں پائی جاتی ۔یقیناً یہ قانون اسی وقت کے لیے بنا دیا گیا تھا کہ جب کوئی ہمیں چھوڑ جائے تو ہم اس شخص کی کمی کو شدت سے محسوس کریں ۔ وہ آج اسی شدت سے اسے یاد کر رہا تھا ۔ چائے کے وہ گھونٹ جو کچھ دن پہلے تک اپنے محبوب کے لہجے سے شیریں لگتے تھے ۔ آج جانے کیوں ان میں ایسی تلخی امڈ آئی تھی جو زبان سے ہوتے ہوئے اندر تک تحلیل ہو کر مزاج میں کڑواہٹ کا سبب بن رہی تھی۔
’’یہ لڑکیاں بھی نا! عجیب ہوتی ہیں … غلطی کوئی بھی کرے خفا انہی کو ہونا ہوتا ہے۔‘‘وہ خود کلامی کرتے ہوئے بولا ۔
مستقل دو دن کی ناراضگی نے اسے بے بس کر دیا تھا یوں جیسے وہ ابھی آ جائے تو فوراً سے پیشتر خود ہی اپنی غلطی کا اعتراف کر کے اسے منا لے گا۔گھر میں چیختی ہوئی خاموشی سے ایک بار پھر دھڑکن کی رفتار دھیمی ہونے لگی اس نے کرسی کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔
وہ خالی کرسی پر آ کر بیٹھی اپنے موبائل پر نظریں جمائے ہنسنے لگی ۔ مراد نے اپنے اس وہم کو کچھ دیر کے لیے سچ مان کر دل کو بہلانے کی ایک بھرپور کوشش کی جس میں وہ ایک حد تک کامیاب بھی ہوا تھا ۔ کچھ دیر کے لیے ہی سہی مگر اداسی کی یہ کیفیت غائب ہوتی محسوس ہوئی تھی۔
’’واہ بہت خوب ۔ کیا آواز ہے ، کھنک دار…‘‘اپنے موبائل میں ایک خوبصورت نسوانی آواز سنتے ہوئے اس نے بے اختیار کہا۔
’’عرشی! تم بھی سنو… دیکھو تو یہ لڑکی کتنا اچھا گاتی ہے۔‘‘ اس نے اپنے موبائل سے ہیڈ فونز نکال کر آواز اونچی کر دی ۔
ریشماں کی آواز میں گایا ہندی فلم کا گیت واقعی اس لڑکی نے کمال سریلی آواز میں گایا تھا ۔
’’ہاں!اچھی آواز ہے۔‘‘ وہ سرسری انداز میں بول کر واپس اپنے موبائل میں محو ہو گئی۔
’’کمال ہے یار! ا س کی آواز کے جادو نے یہاں سب کو دیوانہ بنا دیا ہے لیکن تم…‘‘
عرشی نے تیکھی نظروں سے اس کی طرف دیکھا مگر مراد نے اس کی گھورتی ہوئی نگاہوں پر دھیان نہ دیا تو یکدم اس کی بات کاٹتے ہوئے مصنوعی خفگی سے بولی ۔
’’سب کا تو پتا نہیں … ہاں مگر تم پر ضرور جادو چلا ہے اس آواز کا۔‘‘ مراد نے اس کی بات پر بے اختیار قہقہہ مارا۔
’’ویسے تمہاری آواز بھی بہت خوبصورت ہے ۔ تم بھی مجھے جوائن کرو بلکہ ایک دوسرے کو ڈوئٹ کریں گے۔‘‘ اس نے جیسے مشورہ دیتے ہوئے بات کو ٹالا مگر وہ واپس اپنے موبائل میں مصروف ہو گئی ۔
مراد اکثر اس اسٹار میکر نامی ایپلیکیشن کو استعمال کرتا اور گائیکی کے شوق کو جی بھر کے پورا کرتا تھا ۔ انو نامی اس لڑکی کے ساتھ وہ اکثر گیت گاتا جو اپنے کور پوسٹ پر گائے تمام گیتوں کو سب سے پہلے اسے ڈوئٹ کرتی تھی ۔ اس کی ہر تصویر، ہر وڈیو کو لائک کرتی حالاں کہ اس کے موبائل میں موجود تمام تصویریں زیادہ تر عرشی نے ہی کھینچی تھیں ۔ جس میں سب سے زیادہ چائے کی اور چائے پیتے ہوئے مراد کی تصاویر تھیں ۔
کسی بھی سوشل میڈیا ایپ پر بات چیت کرنا یا کسی شعبے سے متعلق تعلق رکھنا اس کے لیے بڑی بات نہیں تھی لیکن وہ لڑکی ضرورت سے زیادہ مراد میں دلچسپی لینے لگی تھی ۔ اس کی طرح ہر روز چائے کی فوٹو گرافی کرکے اسے میسیج میں بھیجتی ، ہر پوسٹ میں مراد کا نام لکھ کر اسے مینشن کرتی ۔ وہ اس کی اس قدر بے تکلفی پر حیران رہ گیا تھا حالاں کہ مراد صرف گیت گائیکی تک بات چیت کرتا اور گیتوں کے حذف کو پورا کرنے میں اس کا ساتھ دیتا تھا مگر وہ لڑکی ملٹی روم میں آنے سے پہلے اسے میسج کردیتی۔
’’مراد تم بھی آؤ ، سب جمع ہیں بس تمہاری کمی ہے۔‘‘ مراد نے پریشانی کے عالم میں عرشی کو بتایا ۔اس لڑکی سے پیچھا چھڑانے کا یہی ایک راستہ تھا۔
اس کے خیال میں عرشی اسے سمجھا بجھا کر جان چھڑا دے گی ۔ وہ عام طور پر ایسا ہی کرتی تھی لیکن مراد کو لگا اس بار وہ غلط تھا۔
انو کے میسجز پڑھتے ہی عرشی کا پارہ ہائی ہوگیا تھا ۔ اس کے اس قدر برے برتاؤ پر وہ دل ہی دل میں پچھتا رہا تھا کیوں کہ وہ کسی بھی عورت کو برا بھلا کہہ کر اس کی تذلیل نہیں کرنا چاہتا تھا ، نا ہی کبھی اس نے زندگی میں کسی کا دل دکھایا تھا ۔
’’تمہیں پتا ہے اس نے آخری پیغام کیا بھیجا تھا؟‘‘ وہ مراد کے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے بول رہی تھی۔
’’نہیں ، کیوں؟‘‘ مراد نے بے تاثر لہجے میں پوچھا۔
’’میں مر جاؤں تو مجھے یاد مت کرنا۔‘‘ وہ ہنستے ہوئے بتا رہی تھی۔
یعنی کھلے عام خود کشی کی دھمکی دے رہی تھی۔ مراد کو پیغام سے زیادہ اس کے اطمینان نے پریشان کیا تھا لیکن وہ کچھ کہہ نہیں سکا۔
یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا چند دن بعد مراد کو جانے کیا سوجھی کہ خود ہی انو سے رابطہ قائم کیا ۔ وہ اکثر اسے لائیو گانے کی دعوت دیتا ، روز اسے نئے گیت ڈوئٹ کرتا مگر وہ آج کل کچھ زیادہ ہی مصروف تھی ۔ بس گیت گا کر اس کے ڈوئٹ کو فالو کرتی تھی ۔ یہاں تک کہ اس نے اپنی بیوی سے بیزاری کا اظہار کیا تو انو نے جواباً محض اظہار ہمدردی کیا ۔ آج اس نے انو سے کہا کہ وہ اس سے کہیں ملنا چاہتا ہے ۔ اسے یقین تھا وہ انکار کر دے گی لیکن خلاف توقع اس نے شام میں ملنے کے لیئے ہاں کہہ دی۔
وہ بڑی دیر سے آئینے کے سامنے کھڑا بار بار اپنے عکس کو دیکھ کر کبھی بال ٹھیک کرتا تو کبھی خوشبو چیک کرتا ۔ یہ تقریباً تیسری شرٹ تھی جو اس نے بدلی تھی ۔ شاید وہ جان بوجھ کر کر رہا تھا یا نادانستہ طور پر اس سے یہ حرکتیں ہو رہی تھیں۔
’’خیریت! کسی دعوت میں جا رہے ہو؟‘‘اس کے بدلے ہوئے انداز و اطوار دیکھ کر عرشی پوچھے بنا نہ رہ سکی ۔
وہ خود پر قابو پا کر بظاہر مسکرا دیا ۔ عرشی نے کوئی توجہ دیے بغیر اس کا موبائل اٹھا لیا ۔ اسکرین پر سب سے اوپر انو کا میسیج لہرا رہا تھا جو مراد کو اپنے سر پر لٹکتی ہوئی تلوار سے کم نہ لگا ۔ وہ بے ساختہ اس کی جانب مڑی اور ساری گپ شپ پڑھنے کے بعد ان دونوں کے بیچ ایک بحث شروع ہو گئی ۔ مراد نے بھی عرشی کا موبائل اٹھا کر اسے اپنی غلطی گنوائی جو غصے میں اس سے برداشت نہ ہو سکی نتیجتاً وہ گھر چھوڑ کر چلی گئی۔
بجتا ہوا موبائل اس کے خیالوں کے کینوس پر چلنے والی داستانِ محبت میں مخل ہوا مجبوراً وہ کرسی سے اٹھ کر سست روی سے چلتے ہوئے اندر آ گیا ۔ کمرے میں ہر چیز کی بے ترتیبی نے دو چار دنوں میں ہی اس کے گھر کو رنج و الم کے دریا میں ڈوبتی کشتی کا رنگ دے دیا تھا ۔ جہاں فی الحال وہ اپنی زوجہ محترمہ کی یاد میں جام پہ جام کی بجائے چائے پہ چائے پیے جا رہا تھا۔
چائے کا رنگ ہے بڑا گہرا
تیری آنکھوں کی دلکشی کی طرح
ایک بار پھر چائے کی تصویر کے ساتھ کچھ الفاظ بھیج کر اس نے جیسے اپنی غلطی کی تلافی کی تھی ۔ وہاں کوئی موجود نہیں تھا جو اس کی بے ڈھنگی سطروں کو پڑھ کر جوابی کارروائی کرتا اس لیے اسے نا چاہتے ہوئے بھی نئی صبح کا انتظار کرنا پڑ ا۔
٭…٭
’’پورے گھر کو چائے خانہ بنا رکھا ہے۔‘‘ گھر میں بکھری تمام چیزوں کو سمٹنے کے بعد وہ ٹیرس پر آ گئی ۔ میز پر کپ کے نشانات دیکھ کر فون پر کسی کو بتاتی رہی ۔ گھر میں چہل قدمی کی وجہ سے اس کی آنکھ کھلی تو نیم خوابی میں اسے وہ سب خواب سا لگا مگر اگلے کچھ ہی لمحوں میں وہ اپنی آنکھیں مسلتے ہوئے اٹھ بیٹھا اور خوشی کے مارے سیدھا کچن میں گھس گیا۔
یہ چائے کی خوشبو، یہ لذت اور یہ رنگت
آباد ہیں سب تم سے نشیمن بھی، قفس بھی
کچھ ہی دیر میں چائے کے دو کپ ٹرے پر سجائے اس کے سامنے میز پر رکھتے ہوئے وہ پر جوش لہجے میں بول رہا تھا ۔
مراد کی شاعری پر اس نے اپنی ہنسی کو بمشکل چھپایا جس میں پہلی سطر اس کی اپنی تھی لیکن دوسری احمد فراز کی ۔
’’تمہیں اس طرح کسی لڑکی سے بات نہیں کرنی چاہیے تھی کہ وہ غلط فہمی کا شکار ہو۔‘‘بظاہر سیدھے سادے لہجے میں بولے جانے والی اس بات سے یقیناً وہ اپنے احساسِ جرم کے بوجھ سے نجات پانے کی کوشش کر رہی تھی۔
’’کیوں نہیں، ضرور بات کرنی چاہیے ۔ بلکہ جواباً میری طرح تنگ بھی کرنا چاہیے ۔ خاص کر تب، جب آپ جانتے ہوں کہ وہ لڑکی کوئی اور نہیں بلکہ میری بیوی ہی ہے جو کئی دنوں سے مسلسل مجھے آزما رہی ہے ۔‘‘ وہ چائے میں بسکٹ ڈبوتے ہوئے شرارت سے بولا جو ٹوٹ کر چائے میں ڈوب ہی چکا تھا ۔