افسانے

بکسوئے از محسن علی

وہی طویل آنگن ہے جہاں نیم کے پتے ہمیشہ سے ہی بکھرے رہتے ہیں اور بے بے جھاڑو دے دے کر نہ تھکتی تھیں۔ کچی دیواروں پر اب بھی تربوز کی بیلیں چڑھی ہوئی ہیں۔ صحن میں ٹاٹ پر بیٹھے ہل ہل کر سپارہ پڑھتے بچے شاید وہ نہیں ہیں جو دس سال پہلے ہوا کرتے تھے۔ زندگی تغیر پذیر ہے، بدل رہی ہے۔ بے بے چولہے کی راکھ کریدتی دودھ کاڑھ رہی ہیں۔
میں اپنا بیگ صحن میں بے بے کی پشت پر کھڑا ہوگیا۔ تبھی میں نے انھیں بولتے سنا تھا۔
’’تو آگیا مکرم…‘‘
وہ ہمیشہ کی طرح میری موجودگی سے واقف ہوگئی تھیں جیسے میں گرمیوں کی دوپہروں میں چپ چاپ جوتے ہاتھوں میں تھامے نکل کھڑا ہوتا تھا۔ سوت کاتتے ہوئے کبھی انھوں نے پلٹ کر نہ دیکھا تھا بس تین لفظ کہتی تھیں۔
’’تو آگیا مکرم…‘‘
اور میں سامنے آجاتا تھا۔ حیران اور پریشان…!
’’بے بے تجھے جادو آتا ہے۔‘‘
”ہاں تو، ساری مائیں جادوگرنیاں ہوتی ہیں۔ انھیں اولاد بارے سب خبر ہوتی ہیں۔‘‘
مٹی کے کٹورے سے دودھ پیتے اور بننے والی اپنی مونچھوں کو صاف کرتے میں نے سوال پوچھا تھا
’’تو بے بے پھر اولاد کیا ہوتی ہے۔‘‘
’’اولاد… تو جادو توڑ ہوتی ہے۔ جادوگرنیوں کا جادو ہر بار ان کا ساتھ نہیں دیتا مکرم۔‘‘
آج مجھے پتا چلا تھا وہ جادوگرنی آج بھی اپنا جادو یاد رکھے ہوئے تھی۔ میں وہیں مٹی پر آلتی پالتی مارے بیٹھ گیا تھا۔ سارے صحن میں پرندے بھاگتے پھررہے تھے۔ جانے بے بے کا جادو ان پہ بھی چل گیا ہوگا۔ وہی لبالب کاڑھے ہوئے دودھ کا کٹورا، وہی ننگی دیواروں والا مٹی کا چولہا، میں نے دودھ سے بننے والی مونچھوں کو صاف کرکے بے بے کو دیکھا تھا۔
’’بے بے ! تو اپنا جادو نہیں بھولی اب تک۔‘‘
بے بے کی آنکھوں میں صدیاں بھاگتی دوڑتی لپک جھپک گزرگئیں۔
’’تو سب بھول گیا مکرم…‘‘وہ جملہ چھوٹا نہیں تھا۔
چند بلونگڑے بے بے کے قدموں میں لوٹنے آگئے تھے۔ میں حسد سے جل اٹھا تھا!
’’بے بے ! دور کر انکو، جراثیم ہوتے ہیں سانس کی بیماری ہوجاتی ہے۔‘‘
وہ بیٹھے بیٹھے ہنس دی تھیں۔ وہی ہنسی جو اپنا کوئی راز چھپانے کو وہ میرے اور ابا کے سامنے ہنستی تھیں۔ چڑانے والی، مشکوک، پراسرار۔
’’ناں مکرم ناں… ماں ہوں میں ان کی۔‘‘
آری نے میرے دل کو کئی حصوں میں کاٹ کر پھینک دیا تھا۔ مٹی کے کٹوروں میں وہ لمبی دھار سی بنا کر بلونگڑوں کو ڈال رہی تھیں۔
اوں…غوں…ں ں… وہ ایک گھونٹ پی کر بے بے کو سر اٹھاکر دیکھتے تھے اور جب تک بے بے مسکرا کر اثبات میں سر نہ ہلاتی تھیں وہ دوسرا گھونٹ نہ بھرتے تھے۔
’’بے بے ! میں شرمندہ ہوں کہ ابا کے جنازے پر نہ آسکا۔‘‘
’’جانتی ہوں انگلینڈ بہت دور ہے، اتنا دور کہ…‘‘
’’بے بے ٹکٹ کا مسئلہ تھا۔‘‘ میرا دل اداس اور نڈھال تھا۔ وہ اٹھ کر سپارے کا سبق پڑھانے لگی تھیں۔
’’بڑا غرور تھا مجھے اپنے جادو پر کہ آواز لگائوں گی اور دوڑے چلے آئو گے۔ جادو اثر چھوڑگیا ، تیرے باپ کا جنازہ غیروں کے کندھوں نے اٹھایا۔ قیامت کے دن میرا گریبان پکڑکر کہے گا صغری اولاد کی تربیت کرنی نہ آئی تجھے…‘‘
سپارے کو اماں کے آنسو بھگونے لگے۔ نیم کے پتے اڑتے پھررہے تھے۔
’’بے بے ! زندگی نے میرے ساتھ بڑا ہاتھ کرلیا۔‘‘
’’انسان خود اپنے ساتھ ہاتھ کیا کرتے ہیں، ساری واری زندگی کو الزام نہیں دیتے۔‘‘
بے بے دونوں ہاتھوں سے منہ چھپائے سسکیاں بھرنے لگی تھیں۔ پارے پڑھتے کمسن بچے، تربوز ٹونگتے پرندے اور سفید مونچھوں والے بلونگڑے سب مجھے قہر بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ شاید میں نے انکی ماں کو رلادیا تھا۔ بے بے تو سب کی ماں بن چکی تھیں۔
’’بے بے۔ میں آگیا ہوں۔‘‘
مٹی پر پلتھی مارے بیٹھی میری گیانی بے بے مجھے ٹکٹکی باندھے دیکھتی رہی۔ جیسے میری روح تک رسائی حاصل کرلی ہو۔
’’جیسا گیا تھا مکرم تو ویسا لوٹ کر نہیں آیا۔ تیرے تو بکھرے ہوئے جود اور ادھڑی ہوئی روح پر بکسوئے ہی بکسوئے لگے نظر آرہے ہیں… ہائے‘‘
جانے کہاں سے روئی کے گالے اس گھر میں جمع ہوگئے۔
میں بے بے کی گود میں سر رکھے سسک اٹھا تھا۔
’’بے بے! مجھے معاف کردے، میں تھک گیا ہوں۔ سب چھوڑ کر آگیا ہوں، سب کچھ، میں تجھے اکیلا نہیں چھوڑسکتا۔‘‘
وہ مجھے گود لے کر بیٹھی کانپ رہی ہیں۔ میں نے زندگی میں پہلی بار اس جادوگرنی کو یوں روتے اور سسکیاں بھر کر کانپتے دیکھا تھا۔
’’مکرم! اکیلی نہیں ہوں میں، یہ میرے شاگرد، یہ پرندوں کی قطاریں اور یہ بلیوں کے بچے۔ سارے میرے اپنے ہیں۔ کسی روز جو بیمار پڑ جائوں تو صحن میں بیٹھے رہتے ہیں۔ تب تک چوکھٹ سے نہیں ہلتے جب تک مجھے واپس چلتا پھرتا نہ دیکھ لیں، اللہ نے ان کا دل میرے ساتھ جوڑ دیا ہے۔‘‘
چند چڑیاں بے بے کا دوپٹہ چبانے لگی تھیں۔ بے بے نے ہتھیلی آگے کی تو لپک کر بیٹھ گئیں۔
’’بے بے! میری اولاد اور بیوی کا دل میرا ساتھ چھوڑگیا ہے، اپنائیت ختم ہوگئی ہے، اولاد مجھ پر ہاتھ اٹھانے کو آگئی ہے۔‘‘
میری آنکھ کے دریا بے بے کے دوپٹے میں بہہ گئے۔
’’بے بے ! تیری بددعا نے مجھے اکیلا کردیا۔‘‘
بے بے تڑپ کر اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔ دھول کا بادل اٹھ کر بیٹھ گیا ہے۔
’’نا مکرم ناں… میں نے کبھی تجھے بددعا نہیں دی۔ میں نے تو دعا دی تھی کہ اللہ تجھے اتنا رزق دے کہ تو سنبھالتا سنبھالتا تھک جائے۔‘‘
آہ… تو وہ اسٹیٹس، معیارزندگی، دولت سب بے بے کی دعائوں کے کارن تھا۔ میں گم صم ہوگیا تھا۔
پاس آکر بے بے نے میرا ماتھا چوم لیا ہے۔
’’مکرم!جا واپس پلٹ جا… ہر جان اور ہر روح ادھڑی ہوئی ہے۔ ایسے بکسوئے لگے ہیں کہ پل بھر میں کھل جائیں۔ بکسوئے تو عارضی ہوتے ہیں۔ کب اپنے مدار سے نکل جائیں خبر نہیں۔ جسم اور روح کو تو مرہم ہی چاہئے ہوتے ہیں۔ زخم تو بھریں،کھرنڈ تو جمیں۔‘‘
میں دوبارہ واپسی کے سفر کی طرف جارہاہوں۔
وہ صحن کے بیچوں بیچ کھڑی ہیں۔ اپنے بلونگڑے اور خاکستری چڑیوں سمیت…!
’’بے بے!میں جلد سب کو لے کر واپس آوں گا۔‘‘
دوپٹے سے آنکھ کا کونا صاف کرتی وہ ہنس پڑی ہیں۔
’’بے بے ! کا جادو بے کار ہوچکا مکرم… تو نہ بھی آیا تو کوئی بات نہیں، تیرے انتظار میں جنازہ پڑا نہیں رہے گا۔‘‘
انھوں نے بلونگڑوں کو پکڑکر گود میں سلالیا ہے۔
’’تو تم آئو گے ناں۔ جب مجھے تمھاری ضروت ہوگی، چلے آنا، وہاں مٹی میں دفن میں تمہیں دودھ کے کٹورے نہیں دے پائو ں گی مگر مجھے علم ہے تم پھر بھی چلے آئو گے۔‘‘
چڑیاں انکی ہتھیلیوں پر لپک آئی ہیں۔
’’جب اونچی پرواز تمہیں تھکانے لگے تو سستانے کو ہی سہی میرے سرہانے آجاناکہ میں تمہیں لوریاں سناوں گی۔‘‘
مکرم آخری بار پیچھے دیکھ کر جا چکا ہے۔
پارے پڑھنے والوں نے بے بے کو متوجہ کیا تھا۔
’’بے بے!آپکی چادر کے بکسوئے کھل گئے ہیں۔‘‘
’’ہائے! ‘‘ وہ تڑپ کر مڑی ہیں۔ آنسو پوروں پر اتارلئے ہیں۔
’’ہائے مکرم!آج اپنی بے بے کے سارے بکسوئے اتار گیا ہے۔ روح ادھڑ گئی ہے، تیرا مرحم تو تیری اولاد اور بیوی ہے۔ میں نمانی کس چوکھٹ جائوں۔‘‘
نیم کا بوڑھا پیڑ… دیواریں چڑھتی تربوز کی بیلیں… کونجوں کی قطاریں بھی اتر آئیں…!
جادوگرنی کی اولاد آن پہنچی ہے۔ بلونگڑے پیروں میں بیٹھے ہیں، چڑیاں سر اور کندھوں پر طمانیت سے اونگھ رہی ہیں، بے بے نے ہنس کر آسمان کو دیکھا تھا۔
’’ہائے وے ڈاڈھیا ربا! تو نے تو ماؤں کو واقعی جادوگرنیاں بنایا ہے۔ مائیں تو سانجھی ہوتی ہیں، انسان کیا اور پرندے کیا،زخموں کو کھرنڈ بننے میں اب دیر نہیں لگے گی۔‘‘
٭…٭

Related Articles

3 Comments

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے