آن لائن محبت : نازنین فردوس

’’ مومل ،ہاں مجھے تم سے محبت ہے ۔ ‘‘ میں نے مسکرا کر ٹائپ کیا تھا اور میسیج سینڈ کیا تھا ۔
’’آن لائن محبت…؟ ‘‘ اس نے ہنستے ایموجیز کے ساتھ سوال کیا تھا اور میں نے کہا تھا۔
’’کیا محبت آن لائن نہیں ہو سکتی۔ ‘‘ میں نے سوال پر سوال کیا۔
’’پتا نہیں ۔ جو محبت آن لائن ہو تی ہے وہ کبھی بھی آف لائن ہو سکتی ہے ۔ مجھے اس پر با لکل بھروسہ نہیں ۔ میں تو محبت پر اپنے آپ سے زیادہ یقین چاہتی ہوں ۔ ایسی محبت کا دعویٰ کوئی کیوں کرے جو ایک لمحہ میں ہوا میں تحلیل ہو جائے ۔ ہم ایک دوسرے کو جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن کیا یہ دعویٰ درست ہے ؟ ابھی تو ہر چیز پر سوالیہ نشان ہے اور اب محبت کا دعویٰ؟‘‘ وہ لکھتی جا رہی تھی اور میں پڑھتے مسکراتا جا رہا تھا ۔ وہ حرف حرف سچ لکھ رہی تھی ۔ اور مجھے اس کی باتوں پر اعتراض تھا بھی اور نہیں بھی ۔ وہ جو کہہ رہی تھی وہ عام محبت پر کہہ رہی تھی اور میں اسے بتانا چاہ رہا تھا کہ ہم جو پچھلے سال بھر سے مسلسل پیغامات کے ذریعہ رابطہ میں تھے وہ عام نہیں تھا ۔ اس کا مجھے یقین تھا۔
’’مومل، تم محبت کو بہت ہلکا لیتی ہو۔ ‘‘ میں نے اسے بتایا۔
’’ ہلکا تو نہیں لیکن محبت کو لوگ ’’بے مول ‘‘کر دیتے ہیں ۔ انمول جذبوں کو بے مول کرتے یہ بھی نہیں سوچتے کسی کے لیے تو محبت قیمتی متاع ہو تی ہے اور وہ ساری عمر اس محبت کو سنبھال سنبھال کر سینت سینت کر دل کی تجوری میں چھپا تا ہے ۔ یہ ایک بیش بہا پونجی جسے لوگ ارزاں کرنے میں دیر نہیں لگاتے ۔ میں تمہیں بتاؤں کہ محبت کو ارزاں کس طرح کرتے ہیں اس جذبہ کو بے وقعت کر دیتی ہے بے لگام خواہشیں ۔ پہلے آن لائن محبت،پھر دن رات پیغامات بھیجنا۔’’ کیا کر رہی ہو… کیا کھایا… کہاں ہو…‘‘پھر تصویروں کا تبادلہ۔ اور پھر ایک ملاقات کی آرزو۔ اور پھر…‘‘ وہ لکھتے لکھتے رک گئی تھی اور میں بے چین ہو گیا۔
’’ہاں اور پھر اس جذبہ کی پاکیزگی کو داغدار کرنا اور کہنا کہ یہی محبت ہے یہی محبت کی معراج … تو فیصل صاحب مجھے ایسی آن لائن محبت نہیں چاہیے جو آگے چل کر میرے لیے رسوائی کا سامان بن جائے۔‘‘اوراس کی بات پر میرا دل دھڑک اٹھا ۔ اس کے بعد وہ کیا لکھنے جا رہی تھی میں اندازہ کر سکتا تھا۔
’’ تو محبت کے ایسے انجام سے بچنا میری مجبوری ہے ۔ میرے پیچھے کبھی مت آنا ۔ میں ہمیشہ کے لیے اپنی محبت کو محفوظ کر لوں یہ میرے لیے کافی ہے۔‘‘
’’خدا حافظ !‘‘ وہ دیکھتے دیکھتے آف لائن ہو گئی ۔میں جو اس کے آگے کو ئی جملہ ، کوئی امید ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ اس کے یوں آف لائن چلے جانے پر پاگل سا ہو گیا ۔
میں نے اپنے آپ کو بے بس محسوس کیا ۔ بار بار اس کا اسٹیٹس چیک کرتا رہا لیکن وہ ہر بار آف لائن رہا۔
پھر وہ مجھے ہمیشہ کے لیے بلاک کر گئی تھی ۔ میں سوچ رہا تھا کیا محبت بھی بلاک ہو تی ہے ۔ کیا ہماری محبت کا انجام یہی ہو نا تھا۔
٭٭…٭٭
وہ مجھے سوشل میڈیا پر ہی ملی تھی اچانک ۔ بات کرتے مجھے وہ کب اپنے دل پر دستک دیتی محسوس ہو ئی مجھے پتا نہیں تھا۔
اس کے الفاظ میرے دل کے ترجمان لگتے ، اس کی سوچ مجھ سے ملتی تھی ۔ وہ جو کہتی وہ یوں لگتا میرے دل سے نکلا ہے ۔ ہم ایک دوسرے کے دل کا راز بہت پہلے جان گئے تھے مگر اظہار سے پہلو تہی کرنے کی عادت ہم دو نوں میں تھی ۔ اور جب آج میں نے اظہار کی کوشش کی تو وہ مجھے اس طرح رد کر دے گی ۔ میں نے سوچا نہیں تھا یا شاید مجھے پتا تھا اور شاید اسی پتا ہو نے نے ہی مجھے اب تک اظہار سے روکا تھا ۔ لیکن آج … محبت کے اظہار کے لمحوں نے جدائی کا زہر پی لیا تھا ۔
میں نے اس کے بعد اسے ڈھونڈنے کی کوشش شروع کی تھی ۔ ہر اس جگہ جہاں مجھے اس کے ہو نے کا گمان ہو تا ۔ ہر سوشل میڈیا کے اکاؤنٹ کو کھنگالا بہت ڈھونڈا مگر وہ مجھے کبھی نا ملی ۔ وہ یوں میری زندگی سے چلی گئی کہ دن بے رنگ کر گئی اور راتیں اداس ۔ میں اس لمحہ کو کوس رہا تھا جب محبت کو اظہار کا جامہ پہنا یا تھا ۔
اس نے اپنی ہر نشانی مٹادی اور میری زندگی سے یوں نکلی کہ کہ وہ اور میں محبت کے راستے کے مسافر بن گئے ایسے مسافر جنہیں منزل نہیں ملتی۔
آج تین سال ہو گئے تھے ۔ میں نے ہر لمحہ کا حساب رکھا تھا ۔ محبت کے ہر لمحہ کا حساب محبت والے ہی رکھتے ہیں ۔ میں نے اب اپنا اکاؤنٹ ہی بند کر دیا تھا ۔ وہ مومل جس سے میں کبھی ملا تھا وہ کبھی میری زندگی سے نا نکل سکی … میں نے ہر مومل میں اسے ڈھونڈا اور اس کے لفظوں کو کھوجا ۔ میں نے اسے کبھی دیکھا نہیں تھا نا اس نے کبھی کہا تھا کہ وہ کیسی لگتی ہے ۔ میری یاد میں اس کے لکھے الفاظ تھے اور اس کے سچے جذبات ، میں نے پھر کبھی کسی لڑکی سے بات نہیں کی نا کسی سے دوستی کر پایا ۔ وہ مومل ہمیشہ اپنے مقام پر براجمان رہی ۔ جسے محبت کو کھوٹی کرنا پسند نہیں تھا ۔ ان تین سالوں میں اب ایک لیکچرر بن گیا تھا ۔ایک بہترین کالج میں اپنے فرائض ادا کر رہا تھا ۔ سب کہہ کہہ کر تھک گئے تھے کہ اب شادی کر لو اور میں تھا کہ ایک پاگل سی لڑکی کی فلسفیانہ محبت کا شکار ہو کر رہ گیا تھا۔ہرمحبت ارزاں نہیں کی جاتی ۔ جذبے سچے بھی تو ہو تے ہیں ۔ مو تی کی طرح سیپ میں چھپائے جاتے ہیں ۔ میری محبت بھی موتی بن گئی تھی۔
میں اسے ڈھونڈ بھی رہا تھا اور مجھے یقین بھی تھا کہ وہ کہیں آس پاس ہی ہو گی ۔ وہ میرے شہر ہی کی تھی ۔مجھے یقین تھا میں اسے کسی لمحہ کھوج لوں گا اور اسے بتاؤں گا کہ محبت بے مول کیئے بغیر بھی حاصل ہو سکتی ہے۔
٭٭…٭٭
’’ اوہ فاطمہ، میں تمہارے اس پاگل پن سے بیزار ہوں ۔ وہ تم سے محبت کرتا ہے یہ خیال دل سے نکال دو۔‘‘ میں آج ایک کتاب میلے میں اپنی پسندیدہ مصنفات کی کتابیں خریدنے یہاں آیا تھا ۔ اور اب اپنے دوست کے آنے کا انتظار کر رہا تھا۔
’’ تم نے کبھی محبت نہیں کی نا ۔اس لیے تم ایسے کہہ رہی ہو ۔ دیکھو اس نے کہا تھا کہ وہ مجھے یہاں ملے گا اور مجھے یقین ہے وہ یہاں آئے گا ۔ آخر دو سال سے ہم بات کر رہے ہیں ۔ آج اس نے کہا کہ وہ یہاں آئے گا اور تم کہہ رہی ہو وہ مجھ سے محبت نہیں کرتا ۔ ‘‘ فاطمہ نامی لڑکی اب بھرائی آواز میں بو لی تھی ۔ اور میں چونک کر پلٹا تھا۔
وہ سیاہ بالوں والی لڑکی جس کی آنکھیں بھی سیاہ تھیں۔ اب بیزار کن انداز میں ٹہری تھی۔
’’ بس ۔ اس بات سے چڑ ہو تی ہے ۔ محبت کرتا تھا تو وہ تم سے ملنے کی خواہش کیوں کرتا ۔ وہ تمہارے گھر کا پتا پو چھتا ۔ بجائے تم سے ملنے کے اور تم…‘‘
’’ الماس ، کاش کہ تم محبت کو سمجھتیں تو جان جاتیں کہ ملاقات بھی محبت کا ایک انداز ہے ۔ وہ مجھے دیکھنا چاہتا ہے ۔ پتا ہے اس نے مجھ سے کہا تھا کہ میں جیسی بھی ہوں وہ مجھ سے کبھی بے و فائی نہیں کرے گا ۔ اور کیا بن دیکھے بھی محبت ہوتی ہے ۔ ‘‘ اس لڑکی نے سوال کیا تھا ۔میری سماعتیں اس جواب کی منتظر تھیں کہ وہ کیا کہتی ہے۔
’’ ہاں محبت بن دیکھے بھی ہو تی ہے اور سچی ہو تی ہے ۔ اسے دیکھنے کی شرط اسے پانے کی طلب، اظہار کی خواہش محبت کو گدلا کر دیتی ہے ۔ محبت صاف شفاف ہو تو اچھی لگتی ہے ۔ ‘‘ اس کے جواب نے مجھے کھڑے کھڑے بے جان کر دیا تھا۔
’’ وہ دیکھو۔ ابرار بھائی آ گئے ہیں میں جا رہی ہوں اور تم بھی چلی چلو ۔ جودیکھنے کا طلب گار ہے اس پر اعتبار کرنا میرے نزدیک فضول ہے ۔ وہ تم سے ملنے کی خواہش رکھتا ہے تو جائز طریقے سے ملنے کا انتظام کرتا ۔ ایسی محبت رسوا کر تی ہے فاطمہ۔ ‘‘
’’ آپ صحیح کہہ رہی ہیں ۔ محبت میں ملنے کی شرط نہیں ہو تی ۔ محبت کو آف لائن کر دینے سے محبت کبھی آف لائن نہیں ہو تی ۔‘‘ میں جلدی سے اس کے سامنے گیا اور اتنا کہہ کروہاں سے ہٹ گیا تھا ۔ اس کی حیران نظروں میں محبت کا کتنا یقین تھا ۔ میں نے جو کہا تھا وہ صرف مومل الماس ہی سمجھ سکتی تھی۔
فاطمہ خاموشی سے اس کے ساتھ چل پڑی تھی ۔ شاید اسے سمجھ آگئی تھی کہ الماس کا ہر لفظ سچا تھا ۔ بھلا محبت میں ملنے کی کیا شرط ۔ میں اب اپنے گھر جا رہا تھا لیکن ابرار جو میرا کولیگ تھا ۔ اس سے اس کا ایڈریس لینا نہیں بھو لا تھا۔
٭٭…٭٭
آج بہت دن بعد میں نے اپنا اکاؤنٹ کھولا تھا ۔ ان تین سالوں میں میں نے اپنے اکاؤنٹ سے کچھ پوسٹ نہیں کیا تھا ۔ جس دن میری محبت آف لائن ہوئی تھی اس دن میں بھی آف لائن ہو گیا تھا ۔ آج جب اکاؤنٹ کھولا تو وہ ان لائن تھی ۔ میرے دل کی دھڑکنیں اپنا راستہ بدلنے لگی تھیں۔
’’تو مومل الماس ۔ اب تمہیں محبت کیے صادق جذبوں کی پرکھ ہو گئی ہو گی ۔ تم نے سمجھا یوں آف لائن ہو کر میری زندگی سے نکل جاؤ گی ۔ میں فیصل کبھی تمہیں ڈھونڈ نا پاؤں گا۔
مگر نہیں… فیصل کبھی تمہاری یاد سے غافل نا رہا ۔ وہ ہر لڑکی میں اس مومل کو کھوجتا رہا جو محبت پر یقین رکھتی تھی اور اس یقین کو فائم رکھنا چاہتی تھی ۔ میں تمہارے لفظوں سے تمہیں پہچان جاتا جو صرف تم لکھتی تھیں ۔ میں نے تمہیں کبھی دیکھا نہیں تھا نا آواز سنی تھی لیکن پھر بھی میں تم سے زیادہ تمہیں جانتا تھا ۔ یہ ہی تو محبت ہو تی ہے جہاں آپ کو کچھ کہنا نا پڑے اور آپ سب جان جائیں ۔ تم نے آخری بار یہی کہا تھا نا کہ تمہیں کتابوں سے محبت ہے ۔ اوران تین سالوں میں تمہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے مجھے اس دن ادراک ہوا تھا کہ میں تمہیں سوشل میڈیا میں ڈھونڈ رہا تھا اور تم کہیں کتابوں میں چھپی تھیں تب مجھے شہر کے ہر کتاب میلے میں تمہیں ڈھونڈنے کا خیال آیا تھا ۔ اور وہ میری پہلی کوشش ہی کامیاب ہوئی۔میں تمہیں بنا دیکھے پہچان گیا ۔‘‘ میں لکھتے لکھتے رک گیا۔
’’ اگلے پندرہ دن میں ہمارا نکاح ہے اور اب مومل تم مجھ سے کبھی چھپو گی نہیں۔‘‘ میں نے اسے دھمکی دی تھی۔
وہاں سے صرف ایک میسیج آیا تھا۔
’’میں آپ کا انتظار کروں گی ۔ اب آف لائن جا رہی ہوں آپ کی زندگی میں لائف ٹائم ’’ آن ‘‘ رہنے کے لیئے۔‘‘ بہت خوبصورت سے دل کے ساتھ والا یہ میسیج مجھے سر شار کر گیا۔ وہ آف لائن ہو گئی تھی ۔مجھے یہ یقین تھا کہ محبت زندگی بھر کے لیےہمیشہ’’آن ‘‘رہے گی۔
٭٭